Difa e Ahlesunnat

Difa e Ahlesunnat

Part 10




اعتراض

حضورﷺ کے وصال کے بعد سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا نے حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ سے باغ فدک کا مطالبہ کیا تو انہوں نے سیدہ کو باغ فدک دینے سے صاف انکار کردیا جس پر سیدہ ناراض ہوگئیں اور مرتے دم تک حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ سے نہ بولیں۔ حتی کہ یہ وصیت کرگئیں کہ میرے جنازہ میں ابوبکر شریک نہ ہوں۔ چنانچہ بوقت وفات حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے ابوبکر کو اطلاع بھی نہ دی اور راتوں رات سیدہ کو دفن کردیا۔ دیکھو ابوبکر نے جگرپارۂ رسول کو ناراض کیا۔ حضورﷺ نے فرمایا ہے فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی اذیت سے مجھے بھی اذیت ہوتی ہے تو ابوبکر نے فقط فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو غضب ناک نہیں کیا بلکہ پیغمبر خداﷺ کوغضبناک کیا اور اغضاب النبی علی حد الشرک

خلاصہ از کتاب سواء السبیل ص159، مصنف محمد مہدی شیعہ عالم


جواب

آپ نے شیعہ مولوی کی تحریر پڑھی۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کو مشرک تک کہہ دیا (معاذ اﷲ) اس پوری تحریر میں صرف اتنی بات صحیح ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا نے اپنے آقاﷺ کے وصال کے بعد سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ سے باغ فدک کا مطالبہ کیا تو سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے جواب میں اپنے آقاﷺ کی حدیث شریف سیدہ کو سنائی۔

حدیث شریف

حضرت عروہ بن زبیر نے نبی پاکﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت کی ہے کہ رسول پاکﷺ کی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے لئے پیغام بھیجا۔ ان سے رسول اﷲﷺ کی میراث کا مطالبہ کرتے ہوئے جو اﷲ تعالیٰ نے حضورﷺ کو مدینہ منورہ اور فدک میں عطا فرمایا تھا اور جو خیبر کے خمس سے باقی تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ رسول پاکﷺ کا ارشاد ہے۔ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ ہم جو کچھ چھوڑیں، وہ صدقہ ہے مال سے آل محمدﷺ کھاتے ہیں اور خدا کی قسم میں رسول پاکﷺ کے صدقہ میں ذرا سی تبدیلی بھی نہیں کروں گا اور اسی حال میں رکھوں گا جس حال میں وہ رسول پاکﷺ کے عہد مبارک میں تھا اور میں اس میں عمل نہیں کروں گا مگر اسی طرح جیسے رسول پاکﷺ کیا کرتے تھے۔ پس حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے اس میں سے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو کچھ دینے سے انکار کردیا 

ابو دائود جلد دوم، کتاب الخراج، حدیث 1194، ص 455، مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور

یہ ناراضگی اور جنازہ میں عدم شرکت کا قصہ صرف اس لئے بنایا گیا ہے کہ شیعوں کے زعم باطل کے مطابق حضرت فاطمہ فدک کی وجہ سے آپ سے ناراض تھیں، کیونکہ اگر یہ ثابت ہوجائے۔ سیدہ فاطمہ حضرت ابوبکر سے راضی تھیں تو شیعوں کے لئے طعن کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔ اس لئے ہم فریقین کی کتب سے سیدہ فاطمہ کا حضرت ابوبکر سے راضی ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔

شیعوں کی معتبر اور مشہور ترین کتاب شرح نہج البلاغہ ابن مسیم بحرانی جز 35 ص 543 میں یہ روایت ہے کہ حضرت ابوبکر نے جب سیدہ کا کلام سنا تو حمد کی درود پڑھا اور پھر حضرت فاطمہ کو مخاطب کرکے کہا کہ اے افضل عورتوں میں اور بیٹی اس ذات مقدس کی جو سب سے افضل ہے۔ میں نے رسول کی رائے سے تجاوز نہیں کیا۔ اور نہیں عمل کیا میں نے ،مگر رسول کے حکم پر۔ بے شک تم نے گفتگو کی اور بات بڑھا دی اور سختی اور ناراضگی کی۔ اب اﷲ معاف کرے ہمارے لئے اور تمہارے لئے۔ اور میں نے رسول کے ہتھیار اور سواری کے جانور علی کو دے دیئے لیکن جو کچھ اس کے سوا ہے اس میں، میں نے رسول کریمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ

انا معاشر الانبیاء لا نورث ذہباً ولا فضۃ ولا ارضاً ولا عقاراً ولا داراً ولکنا نورث الایمان والحکمۃ والعلم والسنۃ وعملت بما امرنی ونصحت

ہم جماعت انبیاء نہ سونے کی میراث دیتے ہیں نہ چاندنی کی، نہ زمین کی، نہ کھیتی کی اور نہ مکان کی میراث دیتے ہیں لیکن ہم میراث دیتے ہیں ایمان اور حکمت اور علم اور سنت کی اور عمل کیا میں نے اس پر جو مجھے حکم کیا تھا (رسول نے) اور میں نے نیک نیتی کی۔

اس کے بعد یہ ہے کہ حضرت فاطمہ نے یہ فرمایا کہ حضورﷺ نے فدک کو ہبہ کردیا تھا جس پر انہوں نے علی اور ام ایمن کو گواہ پیش کیا۔ جنہوں نے گواہی دی پھر عمر آئے۔ انہوں نے اور عبدالرحمن بن عوف نے یہ گواہی دی کہ حضور فدک کی آمدنی تقسیم فرما دیتے تھے۔ اس پر حضرت صدیق اکبر نے فرمایا۔

کان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یاخذ من فدک قوتکم ویقسم الباقی ویحمل فیہ فی سبیل اﷲ ولک علی اﷲ ان اصنع بہاکما کان یصنع فرضیت بذلک واخذت العہد علیہ بہ وکان یاخذ غلتھا فیدفع الیہم منھاما یکفیہمم ثم فعلت الخلفاء بعدہ ذلک 

شرح مسیم، مطبوعہ ایران، ج 35

تم سب سچے ہو۔ مگر اس کاتصفیہ یہ ہے کہ رسول اﷲﷺ فدک کی آمدنی سے تمہارے گزارے کے لئے رکھ لیتے تھے، اور باقی جو بچتا تھا اس کو تقسیم فرما دیتے تھے اور اﷲ کی راہ میں اس میں سے اٹھا لیتے تھے اور میں تمہارے لئے اﷲ کی قسم کھاتا ہوں کہ فدک میں وہی کروں گا جو رسول کرتے تھے تو اس پر فاطمہ راضی ہوگئیں اور فدک میں اسی پر عمل کرنے کو ابوبکر سے عہد لے لیا اور ابوبکر فدک کی پیداوار کرلیتے تھے اور جتنا اہل بیت کا خرچ ہوتا تھا ان کے پاس بھیج دیتے تھے اور پھر ابوبکر کے بعد اور خلفاء نے بھی اسی طرح کیا۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ حضرت سیدہ کی رضامندی والی یہ روایت صرف ابن میثم ہی نے نہیں بلکہ متعدد علمائے شیعہ نے اپنی کتابوں میں ذکر کی ہے جن کے نام یہ ہیں۔

درنجیفہ شرح نہج البلاغہ مطبوعہ طہران ص 332

حدیدی شرح نہج البلاغۃ جلد دوم، جز 16،ص 296

سید علی نقی فیض الاسلام کی تصنیف فارسی شرح نہج البلاغہ، جز 5،ص 960

رضامندی کی اس روایت سے مندرجہ ذیل امور معلوم ہوئے۔

اول: فدک کے متعلق حضورﷺ کے طرز عمل اور صدیق اکبر کے طرز عمل میں کوئی تفاوت نہیں تھا۔

دوم: حضرت فاطمہ صدیق اکبر سے راضی تھیں اور صدیقی طرز عمل آپ کو پسند تھا۔

قارئین کرام! ﷲ انصاف کیجئے! اس روایت سے جو شیعوں کی معتبر مذہبی کتاب کی ہے بالکل واضح طور پر یہ ثابت ہوگیا کہ سیدہ فاطمہ صلوٰۃ اﷲ علیہا قضیہ فدک میں حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے اور ان کے اس فیصلہ سے جو انہوں نے حدیث رسول کے ماتحت کیا راضی ہوگئیں اور سیدہ نے اس امر کا حضرت ابوبکر سے عہد بھی لے لیا کہ ابوبکر فدک کی آمدنی سے اہل بیت کے اخراجات پورے کریں گے۔ ایسی صاف و صریح رضامندی کے بعد بھی شیعہ حضرات جناب صدیق اکبر پر زبانِ طعن دراز کریں تو اس کا علاج واقعی کچھ نہیں ہے۔ مگر یہ ظاہر ہے کہ سیدہ کے راضی ہوجانے کے بعد کسی محب اہل بیت کے لئے تو یہ گنجائش باقی نہیں رہتی کہ وہ صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پر طعن کرسکے۔ البتہ ناانصافی سے کام لینا دوسری بات ہے۔

سوم: اہل بیت کے اخراجات تمام عمر حضرت صدیق اکبر فدک کی آمدنی سے پورے کرتے رہے اور سیدہ اپنے اخراجات حضرت صدیق اکبر سے وصول کرتی رہیں اور صدیق اکبر کے طرز عمل کو سراہتی رہیں۔

چہارم: نہ صرف صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ بلکہ تینوں خلفاء بھی ایسا ہی کرتے رہے اور انہوں نے فدک میں وہ طرز عمل اختیار کیا جو حضور علیہ السلام اور ان کے بعد صدیق کبر نے اختیار کیا۔


حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے بھی سیدہ راضی تھیں

شیعوں کی مشہور مذہبی کتاب حق الیقین مطبوعہ ایران کے ص 71 پر ہے۔

کہ چوں علی وزبیر بیعت کرد ونداویںفتنہ فرد نشست، ابوبکر آمدہ شفاعت از برائے عمر ف فاطمہ از وراضی شد

پھر جب حضرت علی و زبیر نے بیعت کرلی تو حضرت ابوبکر آئے اور حضرت عمر کے متعلق سفارش کی تو حضرت فاطمہ عمر سے بھی راضی ہوگئیں۔

اسی طرح طبقات ابن سعد جلد 8 مطبوعہ ایران کے ص 17 پر ہے۔

جاء ابوبکر الی فاطمۃ حین مرضت فاستا دن فقال علی ہذا ابوبکر علی الباب فان شئت ان تاذنی لہ قالت وذلک احب الیک قال نعم فدخل علیہا واعتذر الیہا وکلمہا ورضیت عنہ

حضرت ابوبکر فاطمہ کے پاس آئے جبکہ وہ بیمار تھیں۔ انہوں نے اجازت چاہی تو حضرت علی نے کہا ابوبکر دروازہ پر ہیں اگر تم چاہو تو ان کی اجازت دے دو۔ حضرت فاطمہ نے کہا کہ تم (علی) اس کو محبوب رکھتے ہو۔ علی نے فرمایا۔ ہاں پس حضرت ابوبکر داخل ہوئے عذر کیا اور فاطمہ حضرت ابوبکر سے راضی ہوگئیں۔

روایات فریقین سے ظاہر ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا بوقت وفات سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ سے راضی تھیں اور کسی قسم کی کبیدگی ان کے درمیان نہ تھی۔


حضرت سیدہ کی نماز جنازہ میں حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی شرکت

شیعہ حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر سیدہ فاطمہ کے نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوئے اور اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ سیدہ نے وصیت کردی تھی کہ ابوبکر میرے جنازہ میںشریک نہ ہوں۔ اس کے جواب میں پہلے تو ہم ایک اصولی بات کرنا چاہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ کے جنازہ میں کسی شخص کا بالخصوص شریک ہونا نہ فرض تھا اور نہ واجب۔ اور اگر بالفرض شیعہ ہر فرد کی شرکت فرض سمجھتے ہیں اور عدم شرکت کو منافی اسلام سمجھ کر شریک نہ ہونے والوں پر زبان طعن دراز کرتے ہیں تو ان کے پاس اس کا کیا جواب ہے کہ ان کی مستند روایات کے مطابق صرف سات آدمیوں نے حضرت فاطمہ کی نماز جنازہ پڑھی۔ چنانچہ شیعوں کی معتبر کتاب جلاء العیون میں کلینی سے روایت ہے۔

از حضرت امیر المومنین صلوات اﷲ علیہ روایت کردہ است کہ ہفت کس بر جنازۂ حضرت فاطمہ نماز کردند، ابوذر سلمان، حذیفہ، عبداﷲ بن مسعود و مقداد ومن امام ایشاں بودم 

جلاء العیون

حضرت امیر المومنین علی سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا۔ صرف سات آدمیوں نے فاطمہ کی نماز جنازہ پڑھی جن کے نام یہ ہیں۔ ابوذر، سلمان، حذیفہ، عبداﷲ بن مسعود، مقداد اور میں ان کا امام تھا۔

جلاء العیون کی اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف سات افراد نے سیدہ فاطمہ کے نماز جنازہ میں شرکت کی جن کے نام اوپر مذکورہیں اور مندرجہ ذیل افراد نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوئے۔ مثلا حضرت امام حسن اور حسین، عبداﷲ بن عباس، عقیل بن ابی طالب برادر حقیقی حضرت علی، ابو ایوب انصاری، ابو سعید خدری، سہل بن حنیف، بلال، صہیب، براء بن عاذب، ابو رافع، یہ بارہ افراد ہیں جن کو شیعہ بھی مانتے ہیں اور ان کی جلالت قدر کے قائل ہیں۔ ملاحظہ ہو حیات القلوب، رجال کشی، رجال نجاشی…

تو اب سوال یہ ہے کہ اگر بالفرض حضرت ابوبکر صدیق سیدہ فاطمہ کی نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوئے اور یہ بھی فرض کرلیجئے کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ سیدہ ان سے ناراض تھیں تو شیعہ ان بارہ حضرات کے متعلق کیا کہیں گے۔ یہ بھی تو سیدہ کے نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوئے۔ کیا ان سے بھی سیدہ ناراض تھیں اور کیا سیدہ فاطمہ نے یہ وصیت بھی کردی تھی کہ میرے نماز جنازہ میں حسن و حسین بھی شریک نہ ہوں، جو ان کے لاڈلے بیٹے تھے؟

حقیقت یہ ہے کہ جنازہ کی شرکت یا عدم شرکت کو ناراضگی یا رضامندی کی بنیاد بنانا ہی غلط ہے اور اگر اسی اصول کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر حضرت حسن، حسین ،عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہم اور دیگر افراد کے متعلق بھی یہ کہنا پڑے گا کہ ان سے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا ناراض تھیں۔ کیونکہ جلاء العیون کی روایت کے مطابق یہ حضرات بھی سیدہ کے جنازہ میں شریک نہیں ہوئے۔ پس ثابت ہوا کہ اگر یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ بھی جائے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے سیدہ کی نماز جنازہ نہیںپڑھی تو اس کو حضرت ابوبکر صدیق سے سیدہ کی ناراضگی کی دلیل بنانا کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔

اس کے علاوہ شیعوں کی معتبر کتابوں سے ثابت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے اپنی زوجہ محترمہ اسماء بنت عمیس رضی اﷲ عنہا کو جناب سیدہ کی خدمت کے لئے چھوڑ دیا تھا اور حضرت اسماء سیدہ کی تیمارداری کی تمام خدمات انجام دیتی تھیں اور شبانہ روز ان کے گھر میں مقیم تھیں۔ حضرت فاطمہ نے بوقت وفات انہیں غسل دینے، کفن پہنانے اور جنازہ تیار کرنے کی وصیت فرمائی تھی۔ اس کے ثبوت کے لئے کتاب کے حوالہ کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ یہ واقعات شیعوں کی ہر اس کتاب میں مذکور ہیں جس میں حضرت فاطمہ کی وفات اور تجہیز و تکفین کے واقعات درج ہیں۔ جیسے جلاء العیون، ناسخ التواریخ وغیرہ… نہ صرف یہ بلکہ کتب شیعہ میں یہ بھی تصریح ہے کہ جب حضرت فاطمہ کو یہ خیال ہوا کہ کپڑے سے عورتوں کا پردہ اچھی طرح نہیں ہوتا ہے تو گہوارہ کا مشورہ حضرت ابوبکر کی زوجہ محترمہ ہی نے دیا تھا اور یہ بیان کیا تھا کہ حبشہ میں انہوں نے یہ صورت دیکھی ہے کہ جنازہ پر لکڑیاں باندھ کر گہوارہ بناتے ہیں۔ چنانچہ اسی صورت گہوارہ کو جناب سیدہ نے پسند کیا اور حضرت ابوبکر کی زوجہ محترمہ نے موافق وصیت جناب سیدہ ان کے غسل و تجہیز و تکفین میں شریک ہوئیں۔ اس سچے تاریخی واقعہ سے جو شیعوں کی تمام کتب میں موجود ہے۔ مندرجہ ذیل امور پر روشنی پڑتی ہے۔

اول: اگر جناب سیدہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ سے ناراض ہوتیں تو حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کبھی ان کی زوجہ محترمہ سے خدمت لینا پسند نہ کرتیں اور نہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ اپنی زوجہ کو یہ اجازت دیتے کہ وہ شبانہ روز سیدہ کے گھر مقیم رہیں اور ان کی تیمارداری میں مشغول ومصروف رہیں۔

دوم: بالکل وضاحت سے ثابت ہوا کہ جناب سیدہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ سے قطعاً راضی تھیں اور اسی سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو اپنی زوجہ محترمہ سے سیدہ کے حالات معلوم ہوجاتے تھے۔ یا وہ خود اپنی زوجہ سے پوچھ لیتے تھے۔ یہ بھی نتیجہ نکلتا ہے کہ وفات کی اطلاع خصوصی طور پر حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو بھیجنے کی ضرورت نہ تھی۔ کیونکہ جب ان کی زوجہ محترمہ سیدہ کی تیمارداری میں مصروف تھیں تو حضرت ابوبکر کو ایک ایک پل کے حالات معلوم ہوتے رہتے ہوں گے۔ چنانچہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے مشکوٰۃ کی جلد آخر میں یہ روایت نقل کی ہے کہ گہوارہ کی خبر پاکر ابوبکر رضی اﷲ عنہ یہ پوچھنے آئے کہ یہ نئی چیز کیوں بنائی تو حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی زوجہ نے ان کو سمجھا دیا کہ جناب سیدہ نے اس کی وصیت کی تھی اور گہوارہ کو پسند کیا تھا۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر خاموش ہوگئے۔ ان مذکورہ بالا امور سے واضح ہوگیا کہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا بوقت وفات حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ سے بالکل راضی تھیں۔ لہذا جنازہ میں ابوبکر کی عدم شرکت بالکل خلافِ عقل دعویٰ معلوم ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا عبارات سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ سیدہ کے جنازہ میں شریک ہوئے تھے۔


حضرت فاطمہ کی نماز جنازہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے پڑھی

چنانچہ بخاری یاصحاح ستہ کی کسی روایت سے یہ ثابت نہیں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ، سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی نماز جنازہ کی نماز میں شریک نہ تھے۔ بلکہ بعض روایات میں آیا ہے کہ حضرت ابوبکر نماز جنازہ کے امام تھے۔ طبقات ابن سعد میں امام شعبی و امام نخعی سے دو روایتیں مروی ہیں۔

(١) عن الشعبی قال صلی علیہا ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ (٢) عن ابراہیم قال صلی ابوبکر الصدیق علی فاطمۃ بنت رسول اﷲ وکبر علیہا اربعاً

امام شعبی و ابراہیم نے فرمایا کہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے حضرت فاطمہ بنت حضور اکرمﷺ کی نماز جنازہ پڑھائی اور انہوں نے نماز جنازہ میں چار تکبیریں کہیں۔


سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے پاس سات گائوں تھے

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے پاس فدک کے علاوہ بھی حضورﷺ کے عطا کردہ سات گائوں تھے جن کے نام یہ ہیں

دلال عفاف، حسنی، صافیہ، مالام ابراہیم، معبیت، برقہ، چنانچہ فروغ کافی کی جلد ثالث میں ہے کہ احمد بن محمد نے امام موسیٰ کاظم رضی اﷲ عنہ سے ان سات باغوں کا حال پوچھا تو انہوں نے فرمایا۔ میراث نہ تھے بلکہ وقف تھے۔

١) لانھا کانت وقفا و کان رسول اﷲ یاخذ الیہ منہاما ینفق علی اضیبغہ (٢) فلما قبض جاء العباس یخاصم فاطمۃ فیہا فشہد علی علیہ السلام وغیرہ انہا وقف علی فاطمۃ علیہا السلام

اور رسول اﷲﷺ اس میں سے اس قدر لے لیتے تھے جو مہمانوں کے خرچ کو کافی ہو۔ پھر جب رسول اﷲﷺ کا انتقال ہوگیا تو عباس ان کی بابت حضرت فاطمہ سے جھگڑے تو حضرت علی اور دوسروں نے اس بات کی گواہی دی کہ یہ وقف ہیں فاطمہ پر

فروغ کافی جو شیعہ مذہب کی مشہور کتاب ہے، اس کی اس روایت سے مندرجہ ذیل امور پر روشنی پڑتی ہے۔

١) سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے پاس فدک کے علاوہ حضور اکرمﷺ کے عطا کردہ سات گائوں تھے۔ مگر یہ وقف تھے اور حضور اکرمﷺ مہمانوں کے لئے ان کی آمدنی سے کچھ لے لیا کرتے تھے۔

٢) حضور اکرم ﷺکے وصال کے بعد حضرت عباس رضی اﷲ عنہ نے ان میں میراث کا جھگڑا کیا تو جناب سیدہ نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی گواہی پر ان کو یہ ہی جواب دیا کہ یہ تو وقف ہیں اور ان میں میراث جاری نہیں ہوگی۔ پس جس طرح حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے بیان پر ان سات باغوں میں میراث جاری نہ ہوئی اور سیدہ نے ان میں سے حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کو ایک جُبّہ بھی نہ دیا تو اسی طرح اگر حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے حدیث رسول کو نقل کرکے یہ فرمایا کہ فدک میں میراث جاری نہیں ہوسکتی تو کون سا ظلم کیا۔ جب حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے رسول کریمﷺ کی حدیث سنا دی کہ انبیاء کے مال میں میراث نہیں ہوتی اور جو مال وہ چھوڑدیں وہ صدقہ ہے، پھر حضرت ابوبکر پر کیا طعن ہے۔ کیا ان کی حدیث پر عمل کرنا واجب تھا۔ پس اگر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا نے مال وقف سے حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کو میراث نہ دے کر کوئی جرم نہ کیا تو حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے بھی حدیث پر عمل کرکے کوئی جرم نہیں کیا۔ اس کے علاوہ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت ابوبکررضی اﷲ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے بغض و عناد کی وجہ سے میراث کی نفی نہیں کی تھی۔ ایسا ہوتا تو آپ ازواج مطہرات اور حضرت عباس رضی اﷲ عنہ جو حضورﷺ کے چچا تھے، خصوصا حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا جو ان کی بیٹی تھیں، ان کو میراث دے دیتے۔ کیونکہ ان سے آپ کو کوئی بغض نہ تھا۔ ثانیاً اگر خلفاء کا فیصلہ غلط تھا تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ اپنے دور خلافت میں میراث جاری فرمادیتے۔ مگر جناب امیر نے خود فدک میں وہی عمل کیا جو خلفاء نے کیا تھا۔ اس سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کا فیصلہ صحیح تھا اور جناب امیر بھی اس کو صحیح سمجھتے تھے۔ اگر وہ غلط ہوتا تو جناب امیر اپنے زمانہ میں ضرور اس میں میراث جاری کرتے۔ ثالثا اگر حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے یہ فیصلہ سیدہ کے بغض و عناد کی وجہ سے کیا تھا توپھر آپ نے ساری جائیداد سیدہ کے حضور کیوں پیش کی۔

حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کا اپنی جائیداد کو جناب سیدہ کے حضور نہایت التجاء کے ساتھ پیش کرنا اس امر کی بہت بڑی دلیل ہے کہ صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کو سیدہ سے کسی قسم کا عناد نہ تھا اور میراث حضور اکرمﷺ کی حدیث کی بناء پر آپ نے منع کیا تھا۔ چنانچہ شیعہ مذہب کی معتبر کتاب حق الیقین میں ہے کہ جناب سیدہ مطالبہ فدک کا پڑھ چکیں تو خلیفہ اول نے بہت سے مناقب جناب سیدہ کے بیان کئے اور بہت معذرت کے بعد یہ کہا۔

داموال واحوال خودرا از تو مضائقہ نے کنم آنچہ خواہی بگیر تو سیدہ امت پدر خودی و شجر طیبہ از برائے فرزندان خود انکار … تو کسے نمے تواند گرد و حکم تو نافداست در اموال من، اما در اموال مسلماناں مخالفت گفتہ پدر تو نمیتوانم کرد 

حق الیقین ملا مجلسی ص 231

اور میرے جملہ اموال و احوال میں تمہیں اختیار ہے۔ آپ جو کچھ چاہیں بلا تامل لے سکتی ہیں۔ آپ سید عالمﷺ کی امت کی سردار ہیں اور اپنے فرزندوں کے لئے شجر طیبہ ہیں۔ آپ کی فضیلت کا کوئی انکار نہیں کرسکتا اور آپ کا حکم میرے تمام مال میں نافذ ہے۔لیکن مسلمانوں کے مال میں تمہارے والد ماجدﷺ کے فرمان واجب الایقان کی مخالفت نہیں کرسکتا۔

ﷲ انصاف کیجئے! سیدنا صدیق اکبر سیدہ فاطمہ کے حضور میں التجا کررہے ہیں کہ میری دولت حاضر ہے تم جو چاہو لے سکتی ہو۔ مجھے کوئی عذر نہیں ہے، تمہارا حکم نافذ ہے۔ تمہارا فضل وشرف مسلّم ہے۔ تمہاری عظمت و رفعت سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ میرا مال حاضر ہے مگر اموال مسلمین یعنی فدک، یہ وقف ہے۔ اس میں تمہارے ہی والد محترم و مکرم حضور سید المرسلینﷺ کے حکم کے مطابق میراث جاری نہیں ہوسکتی ۔اب تم ہی بتائو کہ فدک میں میراث جاری کرکے رسول کے حکم کی کیسے مخالفت کروں۔ صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کے اس بیان سے جو شیعوں کی ہی مذہبی کتب میں مذکور ہے۔ یہ واضح ہوگیا کہ فدک حضرت صدیق رضی اﷲ عنہ نے صرف اس لئے تقسیم نہیں کیا کہ اس کے متعلق حضورﷺ کا ارشاد موجود تھا۔

ثانیا، حق الیقین کے اس حوالہ سے اس اعتراض کی بھی دھجیاں اڑ گئیں جو شیعوں کے مشہور عالم سید محمد مہدی نے اپنی تصنیف سواء السبیل کے ص 165 پر کیا ہے کہ ’’اگر ابوبکر خطاوار نہ تھے تو انہوں نے معذرت کیوں کی۔ کیا بغیر قصور کئے بھی کوئی معذرت کرتا ہے۔

 آنراکہ حساب پاک است از محاسبہ چہ باک

تو اس کا جواب بھی حق الیقین کے حوالے سے ہوگیا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے اپنے قصور وار ہونے کی وجہ سے معذرت نہیں کی تھی بلکہ اس لئے کی تھی کہ ان کے دل میں جناب سیدہ کی انتہائی تعظیم و توقیر تھی اور وہ چاہتے یہ تھے کہ سیدہ کسی غلط فہمی میں نہ ہوں اور وہ کہیں یہ نہ سمجھ لیں کہ میں میراث کی نفی اپنی طرف سے کررہا ہوں۔ اس لئے بار بار وہ اس امر کی وضاحت کرتے تھے کہ میراث کی نفی میں نے تمہاے پدر بزرگوار حضور سیدالمرسلینﷺ کے حکم کی بناء پر کی ہے اور عملی طور پر اس کی دلیل یہ پیش فرماتے تھے کہ میرا تمام مال و دولت آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ چاہو تو اس کو قبول کرلو۔


کیا حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فدک تقسیم کیا؟

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ تمام کتب تواریخ اس پر شاہد ہیں کہ فدک زمانہ علوی میں بھی اسی طرح رہا جیسے صدیق و فاروق رضی اﷲ عنہما کے دور خلافت میں تھا اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے بھی فدک میں وہی طریقہ جاری رکھا جو صدیق اکبررضی اﷲ عنہ نے جاری رکھا تھا۔ تو اگر حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے اپنے دور حکومت میں فدک غصب کرلیا تھا تو جناب علی مرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کا فرض تھا کہ وہ فدک کو تقسیم کرتے اور اس وقت جو اس کے وارث موجود تھے، ان کو دے دیتے اور جو ناجائز بات چلی آرہی تھی اور جو ظلم روا رکھا گیا تھا، اس کو اپنے دور خلافت میں ختم کردیتے کیونکہ خود حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے میں کہ امام کے لئے پانچ امر ضروری ہیں۔

١۔ خوب وعظ کہنا

٢۔ لوگوں کی خیر خواہی میں خوب قوت صرف کرنا

٣۔ نبی ﷺکی سنت کو زندہ کرنا

٤۔ سزائوں کے حق داروں کو سزا دینا

٥۔ حق داروں کو ان کے حقوق واپس لوٹا دینا 

نہج البلاغہ مصری، ج 1، ص 202

اسی طرح رجال کشی میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا یہ ارشاد مذکور ہے

انی اذا بصرت شیئا منکراً او قدت نارا و دعوت قنبراً 

رجال کشی ص 199

جب میں خلافِ شریعت کام دیکھتا ہوں تو آگ جلاتا ہوں اور قنبر کو بلاتا ہوں۔

اسی بناء پر آپ نے ان لوگوں کو آگ میں جلا دیا تھا۔ جو آپ کو خدا کہنے لگ گئے تھے پھر فرماتے ہیں

ولا المعطل للسنۃ فیہلک الامۃ 

نہج البلاغہ ص 398

امام ایسا نہیں ہونا چاہئے جو پیغمبرکے طریقے کو چھوڑ دے، ورنہ امت ہلاک ہوجائے گی۔

لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جناب علی مرتضیٰ رضی اﷲ عنہ نے فدک میں وہی طریقہ جاری رکھا جو سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کا تھا یہ اس امر کی بہت بڑی دلیل ہے کہ علی مرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کے نزدیک فدک میں صدیقی طرز عمل حق و صواب تھا اور علی مرتضیٰ رضی اﷲ عنہ صدیقی طرز عمل کو بالکل شریعت اسلامیہ کے مطابق جانتے تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ شیعہ حضرات کا صدیقی خلافت میں غصب فدک کا قول کرنا حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی امامت و خلافت پر شرمناک حملہ ہے۔ کیونکہ اگر یہ مان لیا جائے کہ صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے فدک غصب کرلیا تھا تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ پر بھی یہ الزام قائم ہوگا۔ کہ انہوں نے فدک کو صدیقی خلافت کے دستو رپر جاری رکھ کر امت و خلافت کا حق ادا نہیں کیا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ اگر غاصب فدک ثابت ہونگے تو علی مرتضیٰ رضی اﷲ عنہ غصب کے برقرار رکھنے والے۔

سوچئے کہ غصب کرنے والا زیادہ مجرم ہے یا غصب کو برقرار رکھنے والا۔ اور غاصبوں کے طرز عمل کی حکومت و سلطنت کے باوجود حمایت کرنے والا (معاذ اﷲ

غرضیکہ قضیہ فدک میں جناب علی مرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کا طرز عمل دنیائے شیعیت پر بہت بھاری حجت ہے۔ اگر صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کی خلافت پر اعتراض ہوگا تو سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کی خلافت پر بھی حرف آئے گا۔ پس جناب علی مرتضیٰ کا اراضی فدک کو اسی دستور پر رکھنا جس پر کہ جناب صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے رکھا تھا، حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی حقانیت اور ان کے طرز عمل کی صحت پر دلیل قاہر ہے۔

اس موقع پر شیعہ یہ کہا کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فدک اس لئے تقسیم نہیں کیا کہ اہل بیت مال مغصوب واپس نہیں لیا کرتے۔ لیکن یہ بات انتہائی لچر ہے۔ مجالس المومنین میں ملا نور اﷲ شوشتری نے لکھا ہے۔ عمر بن عبدالعزیز نے اپنے دور حکومت میں فدک امام باقر کی تحویل میں دے دیا تھا۔ اگر بزعم شیعہ اہل بیت اشیائے مغصوبہ نہیں لیاکرتے تو امام باقر نے جو شیعوں کے نزدیک معصوم ہیں، فدک واپس لے کر اپنے آبائو اجداد کا کیوں خلاف کیا؟ اس کے علاوہ علی مرتضیٰ نے خلافت مغصوبہ کو کیوں قبول کیا اور حضرت امام حسین خلافت مغصوب کی خاطر یزید سے کیوں لڑے؟ چونکہ معصومین کا ایک سا حال ہوتا ہے تو اس جواب سے تو شیعوں پر بہت سے اعتراض پڑ جائیں گے۔ اس لئے آپ کو ماننا پڑے گا کہ فدک کو حضرت علی نے اس لئے تقسیم نہیں کیا کہ ان کے نزدیک صدیق وفاروق کا فیصلہ اور عمل صحیح وصواب تھا۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو حضرت علی ضرور اس فرض کو ادا فرماتے اور کسی حالت میں بھی کوتاہی نہ فرماتے۔


سوال ١

 اگر نبی کی میراث تقسیم نہیں ہوتی تو ازواج مطہرات کی میراث میں حجرے کیوں دیئے تھے؟

جواب

ازواج مطہرات کے پاس جو حجرے تھے، وہ بطور میراث ان کو نہیں ملے تھے بلکہ رسول پاکﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں ہر زوجہ کو ایک ایک حجرہ بنوا کر ان کے قبضہ میں دے دیا تھا اور ازواج نے رسول پاکﷺ کی حیات میں ان پر قبضہ بھی کرلیا تھا اور ہبہ مع قبضہ موجب ملکیت ہے جیسا کہ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا اور حضرت اسامہ رضی اﷲ عنہ کو بھی حضورﷺ نے اس قسم کے گھر بنواکر ان کی تحویل میں دے دیئے تھے اور ازواج مطہرات اور یہ لوگ ان گھروں کے مالک تھے لہذا یہ حجرے ازواج کو میراث نہیں ملے تھے بلکہ یہ تو ان کی ملکیت تھے اور اس پر دلیل یہ ہے کہ شیعہ سنی کا اس پر اتفاق ہے کہ جب امام حسن رضی اﷲ عنہ کی وفات نزدیک آئی تو آپ نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے ان کے حجرہ میں دفن کئے جانے کی اجازت مانگی تھی۔ اگر یہ حجرہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی ملکیت نہ ہوتا تو اجازت مانگنے کی کیا ضرورت تھی؟

قرآن مجید سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے کہ یہ حجرے ازواجِ مطہرات کی ملکیت تھے۔ نیز یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ حجرے خود حضورﷺ نے اپنی حیات میں ازواج کی ملکیت میں دے دیئے تھے۔

 وقرن فی بیوتکن 

سورۂ احزاب، آیت 33، پارہ 22

اے رسول کی بیبیو! اپنے گھروں میں رہو 

اگر یہ حجرے ازواج کی ملکیت نہ ہوتے تو پھر قرن فی بیوت الرسول (رسول کے گھروں میں قرار پکڑو) ہونا چاہئے تھا ِپس اس سے ثابت ہوا کہ حجرے ازواج مطہرات کی ملکیت تھے اور میراث میں ان کو نہیں ملے تھے۔


سوال نمبر ٢

اگر انبیاء کرام علیہم السلام کا مالی ترکہ تقسیم نہیں ہوتا تو حضرت دائود علیہ السلام کے حق میں قرآن مجید نے یہ کیوں فرمایا؟ وورث سلیمان داؤد… وارث ہوئے سلیمان دائود کےمعلوم ہوا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی میراث جاری ہوتی ہے

جواب

اس آیت میں نبوت و بادشاہت کی وراثت مراد ہے کیونکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو وراثت علمی ملی تھی، مالی نہیں۔ چنانچہ اس کے دلائل یہ ہیں۔

دلیل: اہل تاریخ کا اجماع ہے کہ حضرت دائود علیہ السلام کے کم و بیش انیس فرزند تھے (کتاب ناسخ التواریخ، جلد اول، ص 270 پر حضرت دائود علیہ السلام کے سترہ بیٹوں کے نام لکھے ہیں) اور قرآن نے یہ بتایا کہ ان میں سے صرف حضرت سلیمان علیہ السلام کو میراث ملی اور باقی افراد محروم رہے تو اگر یہاں میراث سے مالی میراث مراد ہوتی تو ان کے تمام فرزندوںکو ملنی چاہئے تھی جس سے یہ ثابت ہوا کہ یہاں میراث سے علم اور نبوت مرادہے جو حضرت سلیمان علیہ السلام کو تو ملی مگر ان کے دوسرے بھائی محروم رہے۔

دلیل… یہاں اگر میراث سے مالی میراث مراد لی جائے تو کلام الٰہی کا لغویت پر مشتمل ہونا لازم آتا ہے، کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ ہر بیٹا اپنے باپ کی میراث پاتا ہے اور یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کو خصوصیت کے ساتھ بیان کیا جائے۔ ایسی صورت میں قرآن مجید کا یہ خبر دینا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت دائود علیہ السلام کے وارث ہوئے، بالکل لغو ہے۔ اور کلام الٰہی لغویت سے پاک ہوتا ہے لہذا ماننا پڑے گا کہ اس آیت میں میراث علمی ہی مراد ہے۔

دلیل… اس آیت میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے فضائل و مراتب کا اظہار کیا گیا ہے اور اگر اس سے مراد وراثت مالی ہو تو یہ کوئی فضیلت کی بات نہیںہے۔ میراث تو آخر سبھی کو ملتی ہے۔ اس میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی کیا خصوصیت ہے۔ اس لئے یہاں میراث سے مراد علمی میراث ہی ہے اور اسی بات کو قرآن مجید نے مقام مدح میں بیان کرکے اس کا اظہار کیا ہے کہ حضرت دائود علیہ السلام کے انیس بیٹوں میں سے یہ شرف صرف حضرت سلیمان علیہ السلام ہی کو حاصل ہوا کہ وہ منصب نبوت پر فائز ہوئے اور انہوں نے اپنے والد حضرت دائود علیہ السلام کی میراث نبوت کو پالیا چنانچہ آیت زیر بحث کے آخری جملے ’’ان ہذا الہو الفضل المبین‘‘ کی تفسیر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے نبوت اور بادشاہت سے کی ہے۔ 

تفسیر صافی جلددوم ص 73

امام جعفر صادق کی اس تفسیر سے واضح ہوا کہ اس آیت میں نبوت و بادشاہت کی میراث مراد ہے، مالی میراث مراد نہیں ہے، چنانچہ اس کی تائید آیت سے بھی ہوتی ہے۔

القرآن: وورث سلیمان داؤد قال یاایھا الناس علمنا منطق الطیر

ترجمہ: وارث ہوئے سلیمان دائود کے۔ پھر کہا سلیمان نے اے لوگو! ہمیں جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے۔

اور اﷲ تعالیٰ نے ہمیں ہر چیز کا علم دیا ہے۔ آیت کا یہ حصہ بھی اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے حضرت دائود علیہ السلام کی میراث میں علم اور نبوت ہی پایا تھا۔


سوال نمبر ٣

باغ فدک کیا تھا، کہاں سے آیا اور اس کی آمدنی کے مصارف کیا تھے؟

جواب

اس کی تفصیل یہ ہے کہ بعض قطعات زمین ایسے تھے جو مسلمانوں کے حملے کے وقت کفار نے مغلوب ہوکر بغیر لڑائی کے مسلمانوں کے حوالے کردیئے تھے۔ ان میں سے ایک فدک بھی تھا جو مدینہ منورہ سے تین منزل پر ایک گائوں تھا اس کی نصف زمین یہودی نے بطور صلح کے دی تھی۔

اسی طرح سات قطعات زمین اور تھے جو مدینہ سے ملحق تھے۔ جن کو یہودبن نضیر سے حاصل کیا گیا تھا۔ یہ تمام قطعات زمین مع فدک کے رسول پاکﷺ نے اپنی حاجتوں کے لئے اپنے قبضہ میں رکھ لئے تھے۔ اسی طرح بعض قطعات خیبر کے تھے جن کی آمدنی سے پانچواں حصہ حضورﷺ کو ملتا تھا۔ جہاد میں جو مال غنیمت آتا تھا اس میں بھی حضورﷺ کا حصہ مقرر تھا۔ رسول پاکﷺ کو ان قطعات زمین سے جو آمدنی ہوتی تھی مندرجہ ذیل امور پر خرچ فرماتے تھے۔

 اپنی ذات مبارک پر اپنے اہل و عیال، ازواج مطہرات پر اور تمام بنی ہاشم کو بھی اسی آمدنی سے کچھ عطا فرماتے تھے۔

 مہمان اور بادشاہوں کے جو سفیر آتے تھے، ان کی مہمان نوازی بھی اسی سے ہوتی تھی۔

 حاجت مندوں اور غریبوں کی امداد بھی اسی سے فرماتے تھے۔

 جہاد کے لئے اسلحہ بھی اسی آمدنی سے خرید فرماتے تھے۔

 آپ اسی آمدنی سے مجاہدین کی امداد بھی فرماتے تھے۔ جس کو تلوار کی ضرورت ہوتی اس کو تلوار اور جس کو گھوڑے یا اونٹ کی حاجت ہوتی، اسے عطا فرماتے۔

 اصحاب صفہ کی خبر گیری اور ان کے مصارف بھی حضورﷺ اسی سے پورا فرماتے تھے۔ صدقہ کا جو مال آتا تھا۔ حضورﷺ اس سے کچھ نہیں لیتے تھے، آتے ہی فورا غریبوں میں تقسیم فرما دیتے تھے۔

اب ظاہر ہے کہ یہ آمدنی ان تمام مصارف کے مقابلہ میں بہت تھوڑی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ازواج مطہرات کو شکایت رہتی تھی۔ آپ نے بنی ہاشم کا جو وظیفہ مقرر کیا تھا، وہ بھی مناسب تھا۔ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا آپﷺ کو حد سے زیادہ عزیز تھیں۔ مگر ان کی بھی پوری کفالت نہیں فرماتے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان قطعات زمین کی آمدنی حضورﷺ مخصوص مدوں میں خرچ فرماتے تھے اور ان کو آپ نے اپنے ذاتی ملکیت قرار نہیں دیا تھا۔ بلکہ اﷲ تعالیٰ کا مال اﷲ تعالیٰ کی راہ میں خرچ فرما دیتے تھے۔

جب رسول پاکﷺ کا وصال ہوا اور سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ خلیفہ ہوئے، انہوں نے بھی فدک کی آمدنی کو انہیں مصارف میں خرچ کیا جن میں حضورﷺ اپنی حیات مبارکہ میں صرف فرمایا کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ فدک کی پیداوار کو لیتے تھے اور جتنا اہل بیت کا خرچ ہوتا تھا، ان کو اس سے بھیج دیتے تھے او رجن جن کے سرکارﷺ نے وظیفے مقرر فرما رکھے تھے، سیدنا صدیق اکبررضی اﷲ عنہ باقاعدگی کے ساتھ ان کو دے دیتے تھے۔ فدک کی آمدنی خلفائے اربعہ ابوبکر و عمر، عثمان و علی رضی اﷲ عنہما سب نے انہیں مصارف میں خرچ کیا جن میں سرکارﷺ خرچ کرتے تھے حتی کہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ جب حاکم ہوئے تو امام حسن رضی اﷲ عنہ کے وصال کے بعد مروان نے فدک کے ایک ثلث کو اپنی جاگیر بنالیا پھر اپنی خلافت کے زمانہ میں اپنے لئے خاص کرلیا اور فدک مروان کی اولاد کے پاس رہا۔

یہاں تک کہ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز علیہ الرحمہ کی حکومت ہوئی تو انہوں نے فدک کو مروان کے رشتہ داروں سے لے کر اسی حالت میں لوٹا دیا جس حالت میں رسول پاکﷺ اور خلفائے اربعہ رضی اﷲ عنہما کے زمانہ میں تھا، یعنی انہوں نے فدک کی آمدنی کو انہیں مصارف پر خرچ کرنے کا حکم دیا جن میں حضورﷺ اور خلفائے اربعہ رضی اﷲ عنہما اس آمدنی کو خرچ کیا کرتے تھے۔ فدک کے متعلق جو باتیں ہم نے درج کی ہیں، یہ شیعہ سنی دونوں حضرات کو تسلیم ہیں۔ تاریخی حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاملہ کچھ بھی نہ تھا۔ محض بات کا بتنگڑ بنا کر سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کو مطعون کیا گیا ہے۔ یہاں ہم خصوصیت کے ساتھ چند امور کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں جن سے اس مسئلہ کو سمجھنے میں مزید آسانی ہوگی۔

١۔ باغ فدک کی آمدنی کو جن مصارف میں حضور پاکﷺ خرچ کرتے تھے۔ خلفائے راشدین حضرت ابوبکر و عمر، عثمان و علی رضی اﷲ عنہما نے بھی انہی مصارف میں خرچ کیا تھا۔

٢۔ باغ فدک کسی کی ملکیت نہ تھا صرف اس کی آمدنی کے مصارف مقرر تھے کہ اس کی آمدنی فلاں فلاں جگہ خرچ کی جائے۔

٣۔ خلفائے راشدین حضرت ابوبکر و عمر، عثمان و علی رضی اﷲ عنہم باغ فدک کی آمدنی کو وصول کرتے تھے تو محض وکیل کی حیثیت سے کرتے تھے۔


تحریر مولانا شہزاد احمد مجددی