Difa e Ahlesunnat

Difa e Ahlesunnat

Masla e Khilafat



موضوع خلافت




عقیدہ اہلسنت و جماعت

خلافت راشدہ کا زمانہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق تیس سال ہے اور اللہ نے بحسب وعدہ اس عرصہ میں خلفائے راشدین کو ان کے مراتب کے اعتبار سے مسند خلافت پر فائز فرمایا نیز آیت استخلاف میں جو رب العزت نے وعدے فرمائے تھے وہ سب اس مدت میں پورے فرما دیے۔ امامت خلافت سے کوئی الگ چیز نہیں ہے اور امامت اصول دین میں سے نہیں ہے 


عقیدہ اہل تشیع

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت شریفہ کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ بلافصل تھے اور ان کی خلافت منصوص من اللہ تھی خلفائے ثلاثہ نے اسےجبراً چھینے رکھا۔ امامت اور چیز ہے اور خلافت اس سے علیحدہ منصب ہے کیوں کہ امام کا معصوم ہونا شرط ہے اور خلافت کے منصب پر متمکن ہونے والے کے لیے عصمت کوئی شرط نہیں


حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کو بھی خلیفہ مقرر نہ کرنا

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں کسی کو بھی اپنے بعد خلیفہ نامزد نہیں کیا بلکہ اس کا فیصلہ شوریٰ پر چھوڑ دیا وہ جسے چاہے منتخب کرلے۔ اس سلسلے میں پہلے اہلسنت کی کتب سے چند دلائل دیے جائیں گے پھر شیعہ کتب سے اس بات کو ثابت کیا جائے گا



















یہ خطبہ جس کے الفاظ درج ہیں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی خلافت کے حق ہونے پر بطور دلیل حجت فرمایا ہے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے اس خطبہ سے معلوم ہوا کہ جب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ خود مہاجرین اور انصار کی مشاورت کو اپنی خلافت کی حجت بنا کر پیش کررہے ہیں تو آپ کا انتخاب انہی حضرات کے باہمی متفقہ مشورہ سے ہوا کسی کے خلیفہ برحق ہونے کے لیے اس کا اللہ اور اس کے رسول کیطرف سے منتخب ہونا کوئی شرط نہیں بلکہ مہاجرین اور انصار کا انتخاب ہی دراصل اللہ کا انتخاب ہے اللہ نے قرآن میں اسی مضمون کی واضح تائید بھی فرمائی امرھم شوری بینھم مسلمانوں کے امور باہمی مشورت سے طے پاتے ہیں اور یہ ان کے اوصاف حمیدہ میں سے ایک وصف ہے














اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کا اعلان فرما دیا ہوتا تو جواب میں ابن طفیل کو یہ کہا جاتا کہ ابن طفیل میں اپنے بعد خلافت کا معاملہ سمجھا چکا ہوں اور اس کے لیے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ بنانے کا اعلان کر چکا ہوں لہذا تمہارے لیے اب کوئی گنجائش نہیں مگر آپ نے جو جواب عطا فرمایا اس سے صاف ظاہر ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں اپنے بعد خلیفہ ہونے کا فیصلہ نہیں کیا

مذکورہ روایات سے اس بات کی بالکل وضاحت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری وقت تک کسی کو خلافت کے لئے نامزد نہیں فرمایا تھا



خلفائے ثلاثہ کی خلافت حقہ پر دلائل


دلیل نمبر ١














ابن میثم نے یہ تسلیم کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ارشاد فرمودہ خطبہ میں موعود من اللہ سے مراد آیت استخلاف ہے تو معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں یقین رکھتے تھے کہ اللہ نے جن لوگوں کو اس زمین میں خلافت عطا فرمانی ہے اور خلیفہ کی مدد کرنی اور ان کے دین کو غلبہ دینا اور ان کے خوف کو امن میں تبدیل کرنے کا وعدہ فرمایا ہے وہ یقینا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں اسی لیے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے لشکر کو اللہ کا لشکر فرمایا اور تسلی دی کہ اللہ آپ کے لشکر کی مدد فرمائے گا










حیات القلوب کی مذکورہ عبارت سے معلوم ہوا ہتھوڑے کی ضرب سے پتھر سے روشنی نکلنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا روم و شام و یمن کے محلات دیکھنا آپ کا معجزہ تھا جو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں پورا ہوا کلید ہائے شام (روم یمن) بمن داد ان الفاظ میں روم شام اور یمن کے محلات کی کنجیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کے مجھے ملیں لیکن ان ممالک کو نہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفس نفیس فتح فرمایا اور نہ ہی ظاہری طور پر ان کی کنجیاں آپ کو ملیں لہذا اس غیب کی خبر کا مفہوم واضح ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی فتوحات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی فتوحات فرمایا اور ان کے ہاتھوں میں کنجیاں آنا اپنے ہاتھوں میں آنا شمار فرمایا





ان روایات سے پتہ چلا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا کہ اللہ نے مجھے فتح دی اور ان فتوحات کو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے آیت استخلاف کا مصداق بنایا ہے جیسا کہ شرح نہج بلاغہ کے حوالہ سے ثابت ہوا تو ان مقدمات سے یہ نتیجہ نکلا کہ خلفائے ثلاثہ کی خلافت حق اور قرآن اور کتب شیعہ سے ثابت ہے






دلیل نمبر ٢





آیت زیر بحث میں اللہ نے جو پیش گوئی فرمائی اس کا پورا ہونا علامہ طبرسی کے بیان سے واضح ہو گیا اور پورا بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے ساتھیوں کے جہاد کرنے سے ہوا تو جس سے اللہ نے یہ پیش گوئی پوری فرمائی وہ ان اوصاف مخصوصہ کا یقیناً حامل ہوا جو اللہ نے اس آیت میں بیان فرمائے لہذا اللہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو خلافت عطا فرما کر اپنی پیش گوئی پوری فرمادی۔



دلیل نمبر ٣






ان آیات میں امام باقر رضی اللہ تعالی عنہ کی تفسیر کے مطابق وہ فتح اور غلبہ مراد ہے جو عہد فاروقی میں فتح فارس کی صورت میں مسلمانوں کو حاصل ہوا 



دلیل نمبر ٤











دلیل نمبر ٥










حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ان جوابات سے ثابت ہوا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو جو مرتبہ خلافت ملا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں وقعت نصیب ہوا تو یہ سب کچھ ان کے اسلام میں فضائل کے مطابق ہوا اور ان دونوں کی رحلت سے اسلام کو بہت نقصان ہوا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے جب دونوں کے عدل و انصاف اور سیرت کو ملاحظہ فرمایا جو خود حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا اپنے لیے خلافت سے مقصود تھا تو ان پر راضی ہوگئے اور ان کا مشیر بننا پسند کرلیا



دلیل نمبر ٦




مزکورہ عبارت سے ثابت ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا مقصود خلافت حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ کلمہ توحید کی نشرو اشاعت اور لشکروں کی تیاری کے ساتھ فتوحات میں توسیع دینا تھا اسی لیے جب انہوں نے دیکھا کہ جو اسلام کے مقاصد تھے وہ سب کے سب شیخین نے پورے کردیے تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے رضامندی کے ساتھ یکے بعد دیگرے ان کی بیعت کرلی



دلیل نمبر ٧





دلیل نمبر ٨




اس روایت سے ایک بات تو یہ ثابت ہوئی کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت کے بعد اپنا مقصد فنشھدالخ سے بیان فرمایا جس میں بطور شہادت حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کا ثبوت اور وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا دوسری بات یہ کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے اگرچہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے وصی کے الفاظ سنے تھے لیکن اتفاق و اجماع صحابہ کو دیکھتے ہوئے اسے مرجوع قرار دیا اور خلافت صدیق کے حق ہونے کی بیعت کی



دلیل نمبر ٩




مذکورہ عبارت میں شیعی مورخ علامہ مسعودی نے امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت حقہ پر اس خبر صحیح کو بطور دلیل پیش کیا یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ میرے بعد تیس سال خلافت حقہ ہوگی تو وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے لے کر امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت تک ہی تیس سال پورے ہوتے ہیں تو اس سے دو چیزیں واضح طور پر ثابت ہوتی ہیں اول یہ کہ یہ تیس سال خلافت حقہ کی روایت شیعہ مورخ کے نزدیک صحیح ہے اور دوم یہ کہ اگر خلافائے ثلاثہ کی خلافت کو خلافت حقہ نہ مانا جائے تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کا زمانہ خلافت تو صرف پانچ سال تین ماہ اور دس دن ہی بنتا ہے اور خبر صحیح میں زمانہ خلافت کا عرصہ کل تیس سال مذکور ہے جس میں سے اگر پانچ سال تین ماہ اور دس دن کی خلافت کو خلافت حقہ مانا جائے تو لامحالہ باقی پونے پچیس برس کی خلافت کو خلافت حقہ ماننا پڑے گا کیوںکہ حدیث میں اس بات کی تصریح ہر گز نہیں کہ پانچ سال تو خلافت حقہ ہوگی اور باقی پچیس سال خلافت غاصبانہ ہوگی لہذا معلوم ہوا کہ خلفائے ثلاثہ کی خلافت حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کی طرح خلافت حقہ تھی 



دلیل نمبر ١٠






صحابہ کرام نے جو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے خلافت کو واجب قرار دیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ نبی پاک نے فرمایا علیکم بالسواد الاعظم یعنی تم پر اکثریت کا ساتھ دینا ضروری ہے اور اس بات کو شیعہ مورخ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ سواد اعظم نے ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کو خلافت حقہ سمجھا ہے 



دلیل نمبر ١١














دلیل نمبر ١٢











حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ بلافصل نہیں


دلیل نمبر ١





حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے اس قول سے ہمیں دو باتیں معلوم ہوتی ہیں
١ آپ کو خلیفہ بلافصل کہنا باطل ہے اور ایسا کہنے والے پر اﷲ تعالیٰ کی لعنت ہے۔
٢ آپ خلفائے اربعہ میں سے چوتھے نمبر پر خلیفہ ہیں اور یہی عقیدہ ضروری بھی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے اس کلام پر عمل کرنا اور اسے درست تسلیم کرنا اس وقت درست ہوگا جبکہ خلیفہ ’’بلافصل‘‘ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو مانا جائے۔ اور دوسرا خلیفہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کواور تیسرا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو تسلیم کرلیا جائے۔ ان تینوں کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کو مانا جائے



دلیل نمبر ٢



روافض کے نزدیک اللہ کا حکم تھا خلافت سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے تو کیا اللہ کے حکم کے اتنی قدر و قیمت تھی سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے نزدیک ؟؟؟



دلیل نمبر ٣



اگر خلافت منصوص من اللہ تھی جیسا کہ رافضیوں کا دعوی ہے تو واضح طور پر سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ اس حکم الہی کا انکار کرتے نظر آتے ہیں



دلیل نمبر ٤



اگر خلافت منصوص من اللہ تھی اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو پتہ بھی تھا اسکا تو خواہش کا اظہار نہ کرنے کا مطلب ہے اللہ کے حکم کا انکار



دلیل نمبر ٥




اس روایت سے ثابت ہوا کہ اللہ نے امر خلافت بلافصل کو ابتداء میں اہلبیت کا حق بنایا تھا مگر اس کے بعد جب اللہ کو یہ علم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد زمین میں برائی پھیل جائے گی اس میں بدکاریاں ہوں گی قرآن کی مخالفت ہوگی لہذا اللہ نے ایسے وقت میں اہلبیت کی خلافت کو نامناسب سمجھتے ہوئے اسے غیروں کے حوالے کردیا اس سے دو چیزیں ثابت ہوئیں اول یہ کہ رافضی عقائد میں اللہ کو جاہل ثابت کیا گیا ہے جہالت تو معمولی بات ہے ان لوگوں نے تو عقیدہ بداء کو حق جانا دوم یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد خلافت بلافصل اہلبیت کے لیے مناسب ہی نہ تھی اسی لیے اللہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بجائے خلفائے ثلاثہ کو خلافت عطا فرمائی



دلیل نمبر ٦




اس روایت میں امام باقر رضی اللہ تعالی عنہ نے فیصلہ ہی کر دیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے خلیفہ بلافصل کا سوال کیا تو اس سے اللہ نے صاف انکار کردیا



دلیل نمبر ٧




حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی زبان سے واضح کردیا کہ آپ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عہد و پیمان ہوچکا تھا کہ آپ حصول خلافت کے لیے لوگوں کو خود دعوت نہیں دیں گے حتی کہ لوگ بنفس نفیس آپ کے پاس آئیں اور آپ کی بیعت کرلیں تو پھر آپ مسلمہ خلیفہ ہوں گے لیکن جو کچھ مقدر ہو چکا تھا وہی ہوا کہ خلفائے ثلاثہ یکے بعد دیگرے مسند خلافت پر جلوہ افروز ہوئے اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے بحسب وعدہ نبوی اس مدت خلافت میں نہ کسی کو حصول خلافت کے لیے بلایا اور نہ ہی کوئی آپ کی بیعت کو آیا یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ابھی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے خلیفتہ المسلمین بننے کا وقت نہ آیا تھا اور جب عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد بحسب منشائے خدا اور رسول وہ وقت آنپہنچا جب خود بخود لوگ آپ کی بیعت کو ٹوٹ پڑے اور باجماع مسلمین آپ خلیفہ چن لیے گئے

مزکورہ بالا روایت میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے اس کشف باطنی روحانی علم کو شیخ مفید نے اپنے لفظوں میں یوں بیان کیا کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا عمل ظاہر حال کے مطابق تھا اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ باطن پر عمل پیرا تھے دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا خیال تھا کہ اگر میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی بیعت کرلوں تو لوگ یہ سمجھ کر کہ عم رسول نے بیعت کرلی ہے دھڑا دھڑ بیعت علی پر امڈ آئیں گے لیکن یہ معاملہ کچھ مثل واقعہ موسٰی و خضر عليه السلام تھا کہ خضر عليه السلام کی طرح حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ علم لدنی کے ذریعے جانتے تھے کہ میری خلافت کا زمانہ خلافت راشدہ کے آخری پانچ برس ہیں 




خلفائے ثلاثہ منافق نہیں




اب روافض کہتے ہیں کہ خلافت منصوص من اللہ تھی مگر وہ چھین لی گئی یہاں تو وصیت کر رہے ہیں نبی پاک سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو کہ قرآن و سنت کی مخالفت کرنے والوں سے لڑنا اور بیعت توڑنے والوں سے لڑنا ظالموں سے لڑنا مگر سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے شیخین سے بالکل بھی لڑائی نہیں کی جبکہ رافضیوں کے مطابق وہ ظالم بھی تھے غاصب بھی منافق بھی۔




کیا حضرت على رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے اس واضح فرمان پر عمل کیا؟ بقول رافضی خلفاء ثلاثه (حضرات ابوبكر وعمر وعثمان رضی اللہ تعالی عنہم) نے دین میں بہت سی بدعات ایجاد کیں، اذان کو بدل دیا، تراویح ایجاد کی ، نبی صلى الله عليه وسلم کی سنت کو بدل ڈالا تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے انکے خلاف "قتال" کیوں نہ کیا؟




امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے اس ارشاد سے یہ بات واضح کردی کہ قرآن کے حکم يا أيها النبي جاهد الكفار والمنافقين پر عمل فرماتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے منافقین سے جنگ لڑی اور اگر آپ منافقین سے جنگ نہ کرتے تو آیت کے کچھ حصہ پر عمل نامکمل ہوتا وہ اس طرح کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار سے جنگ لڑکر جاهد الكفار پر عمل کیا اور منافقین کے ساتھ جہاد کی نوبت نہ آسکی لہذا اگر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی منافقین سے جنگ نہ فرماتے تو والمنافقين پر عمل کون اور کس طرح کرتا؟








خلفائے راشدین کی سیرت پر عمل کرنے کی تلقین




من اھل بیتی کا لفظ مصنف کی اپنی اختراع ہے کیونکہ اس کا سیاق و سباق سے کوئی ربط نہیں کیونکہ اس کے ماقبل لفظ راشدین ہے جو کہ جمع مذکر کا صیغہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطاب ان لوگوں سے ہے جو زمانہ نبوی میں بقید حیات تھے اور انہوں نے ایسے خلفائے راشدین کا زمانہ نہیں پایا جو سب کے سب اہلبیت سے ہوں اور نہ ہی اس کا تعلق مابعد کے کلام سے ہے کیونکہ مابعد کے کلام کا مفہوم یہ ہے کہ تم حق کی اتباع کرو اگرچہ صاحب حق ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو اور غلام حبشی کا بھی نسبی طور پر اہل بیت سے کوئی تعلق نہیں لہذآ ثابت ہوا کہ من اھل بیتی کا اضافہ مصنف نے اپنے حسد و بغض کی بنا پر کردیا ہے تاکہ خلفائے ثلاثہ اس سے نکل جائیں حالانکہ خلفائے ثلاثہ کو اگر خلفائے راشدین سے نکالا جائے تو اس حدیث کا کوئی مفہوم اور معنی نہیں بنتا اور اس کے علاوہ اس مصنف کی اس زیادتی کی تردید خود کتاب کشفہ الغمہ اور بحار الانوار میں امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے اس کلام سے موجود ہے 






امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی اس شرط میں سوائے خلفائے ثلاثہ کے اور کوئی مراد نہیں ہوسکتا نیز آپ نے خلفائے ثلاثہ کو خلفائے راشدین قرار دیتے ہوئے امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پر ان کے طریقے کی پیروی کو لازمی قرار دیا لہذا ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث میں جو خلفائے راشدین کا لفظ آیا ہے اس سے مراد خلفائے ثلاثہ بمع حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ہی ہوسکتے ہیں کیونکہ امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی انہی خلفائے ثلاثہ کی سنت کو واجب العمل قرار دیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث نے واضح کردیا کے میرے بعد جو فتنے اٹھے گے (مثلاً مسیلمہ کذاب وغیرہ کے) تو ان میں میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کو تم مضبوطی سے پکڑ لینا تاکہ تم ان فتنوں سے محفوظ رہو


Imam Abu Bakar Siddique (Radi ALLAHu Ta'ala Anhu) Ko Pehla Khalifa Kis Ne Banaya?? by Allama Irfan Shah Mashadi