آگ در فاطمہ رضی اللہ عنہا والی روایات کا رد
رافضیوں کی طرف سے اس موضوع پر پیش کی جانے والی روایات
١
اس روایت کا ترجمہ یہ ہے
بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کی بیعت کی گئی تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں مشورہ اور گفتگو کیا کرتے تھے جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو اس بات کی خبر ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر کے پاس آئے اور کہا اے بنت رسول محبوب ترین فرد میرے نزدیک آپ کے والد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور انکے بعد آپ ہیں لیکن اللہ کی قسم یہ محبت میرے مانع نہیں ہے اگریہ افراد تمہارے گھر میں جمع ہوئے تو میں گھر کو جلا دونگا جب عمر رضی اللہ تعالی عنہ چلے گئے اور یہ افراد جناب سیدہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا معلوم ہے عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کیا کہا ہے ؟ عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا ہے اللہ کی قسم اگر دوبارہ یہ لوگ جمع ہوئے تو تم لوگوں پر گھر کو جلادونگا ۔ خدا کی قسم عمر رضی اللہ تعالی عنہ اپنے کہے پر عمل کر کے رہے گا
اس روایت کی سند اس طرح ہے: حدثنا محمد بن بِشْرٍ نا عُبيد الله بن عمر حدثنا زيد بن أسلَم عن أبيه أسلم
روایت کرنے والے اسلم القرشی العدوی (حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے غلام) تابعی ہیں اور صحابی نہیں ہیں ، جو بیعت حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا احوال بتا رہے ہیں ، جبکہ وہ اُس وقت مدینہ منورہ میں موجود ہی نہیں تھے۔ اُن کی مدینہ آمد ، اُس سال ماہ حج کے بعد ہوئی ، جبکہ بیعت کا یہ واقعہ ربیع الاول کا ہے ان کا اس واقعہ میں موجود ہونا ثابت نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات گیارہ ہجری میں ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ ماہ بعد رمضان یا شوال میں ہوئی۔ جس واقعہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف الزام لگایا جاتا ہے وہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فورا بعد کا ہے۔ اسلم القرشی تو ان تینوں واقعات میں موجود نہ تھے۔ مطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت، جب یہ دھمکی والا واقعہ ہوا اور تیسرا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے وقت۔ بلکہ وہ تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد مدینہ آئے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلم نے یہ واقعہ کس سے سنا؟؟؟ جبکہ وہ تو بہت بعد مدینہ آئے۔ تو ثابت ہوا کہ مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت بھی مرسل ہونے کی وجہ سے ناقابل استدلال ہے۔
دوسری بات یہ کہ روایت میں کہیں مذکور نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو مارا پیٹا یا دھکا دیا ، جو روافض کی خود ساختہ گھڑی ہوئی داستان ہے
تیسری بات یہ ہے کہ اس روایت میں صرف دھمکی دینا ہی ثابت ہے نہ کے گھر کو جلا دینے کی یا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو مار دینے کی اور اس طرح کی دھمکی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے جب انہوں نے فرمایا کہ تم لوگ مسجد میں ضرور حاضر ہوا کرو ورنہ میں تمہارے گھروں میں آگ لگا دوں گا۔ اب اس سے یہ مطلب کون لے سکتا ہے کہ رسول اللہ نے واقعی ان کے گھروں میں آگ لگا دی۔ یہ حدیث شیعہ کتاب میں بھی ملتی ہے ملاحظہ ہو
و قال رسول الله صلى الله عليه وآله لقوم: لتحضرن المسجد أو لأحرقن عليكم منازلكم
کتاب من لا يحضره الفقيه - الشيخ الصدوق - ج ١ - الصفحة ٢٦١
ترجمہ
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قوم سے فرمایا کہ تم لوگ مسجد میں حاضر ضرور ہوا کرو ورنہ میں تمہارے گھروں میں آگ لگا دوں گا
٢
رافضی اسطی طرح تاریخ طبری کی ایک اور ضعیف روایت کو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ پر طعن کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ وہ روایت یہ ہے
زیاد بن کلیب سے مروی ہے کہ وہاں سے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے مکان پر آئے، حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ، اور بعض دوسرے مہاجرین بھی وہاں موجود تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا چل کربیعت کرو، ورنہ میں اس گھر میں آگ لگا کر تم سب کو جلا دوں گا۔ حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ تلوار نکال کر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ پر بڑھے مگر فرش میں پاؤں الجھ جانے کی وجہ سے گرے اور تلوار ہاتھ سے چھوٹ گئی، تب اور لوگوں نے فورا زبیر پر یورش کر کے انہیں قابو کر لیا
اس روایت کی سند اس طرح ہے حدثنا ابن حميد قال حدثنا جرير عن مغيرة عن زياد بن كليب
اس روایت کو کتاب صحيح وضعيف تاريخ الطبري میں ضعیف کہا گیا ہے
اس روایت میں راوی زیاد بن کلیب ثقہ ہیں لیکن وہ تابعی ہیں اور صحابی نہیں ہے۔ زیاد بن کلیب یہ واقعہ براہ راست بیان کر رہے ہیں حالانکہ وہ اس واقعہ میں موجود نہ تھے بلکہ وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے کافی دیر بعد اسلام لائے۔ دوسرا ان کی وفات ١١٠ یا ١١٩ ہجری میں ہوئی جبکہ رسول اللہ ١١ ہجری میں وفات پا گئے۔ یہ واقعہ رسول اللہ کی وفات کے فورا بعد کا ہے۔ لہذا یہ ثابت ہی نہیں ہوتا کہ زیاد بن کلیب اس واقعہ میں موجود تھے۔ تو یہ روایت اس طرح منقطع ہو جاتی ہے
اس روایت کے دوسرے راوی مغیرہ بن مقسم تدلیس کرتے ہیں اور یہ روایت عن سے ہے۔ یہ اہل سنت کا مشہور اصول حدیث ہے کہ مدلس کی روایت غیر صحیحین (بخاری و مسلم کے علاوہ) اگر عن سے ہو تو وہ روایت ضعیف ہوتی ہے۔ یہ روایت بھی تاریخ طبری میں عن سے ہے
اس روایت کے تیسرے راوی جریر بن حازم ثقہ ہیں لیکن ان کو آخری عمر میں اختلاط ہو گیا تھا
اس روایت کے چوتھے راوی محمد ابن حمید ابن حیان ہیں جن کے بارے میں کتاب تہذیب التہذیب میں آیا ہے کہ امام نسائی اور الجوزانی نے اسے ناقابل اعتماد راوی کہا امام الرازی نے فرمایا میرے پاس اس سے ٥٠٠٠ احادیث موجود ہیں لیکن میں ایک بھی نہیں لوں گا امام بیہیقی نے فرمایا کہ حدیثوں کے امام امام ابن خذیمہ نے اس سے ایک روایت بھی نہیں لی۔
لہذا یہ روایت بھی سخت ضعیف اور ناقابل استدلال ہے۔
٣
ایک اور روایت جو اکثر پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے
رافضی ان روایات سے گھر جلانا مراد لیتے ہیں حالانکہ ان میں گھر جلانے کا کوئی تذکرہ نہیں۔ ان روایات کی سند سخت ضعیف اور منکر ہیں کیونکہ ان کی سند میں راوی علوان بن داؤد جسے علوان بن صالح کہا جاتا ہے منکر الحدیث ہے اور کتاب مروج الذہب اہلسنت کی کتاب نہیں بلکہ خود شیعہ حضرات کی کتاب ہے
٤
علامہ الشہرستانی نے اس کتاب میں معتزلی کے فرقے النزامیہ کو بیان کرتے ہوئے ان کے باطل عقائد بتاتے ہوئے اس واقعہ کو ذکر کیا ہے کہ النزامیہ فرقے کا عقیدہ ایسا ہے رافضیوں نے علامہ الشہرستانی پر یہ الزام لگا دیا کے ان کی کتاب میں یہ واقعہ درج ہے
اس روایت کی نہ تو ابراہیم بن یسار تک کوئی سند مذکور ہے نہ ابراہیم سے آگے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تک کوئی سند دنیا کی کسی معتبر کتاب میں موجود ہے۔ یہ روایت دنیا کا سفید جھوٹ اور شیطان لعین کی کارستانی ہے۔ اس طرح کی جھوٹی ، بے سند اور بے سرو پا روایات سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف پراپیگنڈہ کرنا ناعاقبت اندیشی ہے۔ ابراہیم بن یسار ابن ہانی النظام گندے عقیدے کا حامل تھا اور یونانی فلسفے سے بہت متاثر تھا۔ معتزلی مذہب رکھتا تھا اور اس کے نام پر فرقہ نظامیہ نے جنم لیا
حافظ ذہبی نے احمد بن محمد بن ابی دارم ابوبکر کوفی کے ترجمہ میں ابو الحسن محمد بن احمد کوفی حافظ کے حوالے سے اس کے بارے میں لکھا ہے
وہ ساری عمر درست نظریے اور عقیدے پر رہا ، لیکن عمر کے آخری دور میں اس کے پاس عام طور پر صحابہ کرام کے خلاف ہرزہ سرائیاں ہی پڑھی جاتی تھیں۔ میں ایک دن اس کے پاس آیا تو ایک آدمی اس کے پاس یہ روایت پڑھ رہا تھا کہ عمر (رضی اللہ عنہ) نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا پر ظلم کیا حتی کہ ان کے پیٹ کا بچہ محسن گرگیا
اس روایت کو بیان کرنے والے ابن ابی دارم کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکتے ہیں: "یہ رافضی اور سخت جھوٹا تھا
امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : "یہ شخص رافضی اور غیر معتبر تھا
کتاب ميزان الإعتدال فى نقد الرجال - محمد بن أحمد بن عثمان بن قايماز الذهبي شمس الدين أبو عبد الله - جلد ١ - صفحہ ١٣٩
٥
علامہ شبلی نعمانی نے اپنی کتاب الفاروق میں یہ روایت مصنف ابن ابی شیبہ اور طبری سے نقل کی ہے جن کے بارے میں اوپر تفصیل دی جا چکی ہے اس کے علاوہ علامہ شبلی نعمانی نے اس روایت کے بارے میں لکھا ہے کہ اگرچہ سند کے اعتبار سے اس روایت پر ہم اپنا اعتبار ظاہر نہیں کرسکتے کیوںکہ اس روایت کے راویوں کا حال ہم کو معلوم نہیں
٦
علامہ الصفدی نے بھی اس کتاب میں معتزلی کے فرقے النزامیہ کو بیان کرتے ہوئے ان کے باطل عقائد کو کھولتے ہوئے اس واقعے کا ذکر کیا ہے
٧
ابن قطیبہ نے الامہ ولسیاست کے نام سے کوئی کتاب نہیں لکھی کسی رافضی نے اسے لکھ کر اسے ابن قطیبہ کی طرف منسوب کردیا فہرست اور رجال کے علماء نے آج تک اس کتاب کو ابن قطیبہ کی کتب میں شامل نہیں کیا بلکہ تحقیق کے بعد اس کتاب کو ابن قطیبہ کی طرف جھوٹ منسوب کرنا شمار کیا ہے
ابن قتیبہ کی کتاب المعارف جو کہ خود ہی ایک غیر معتبر کتاب ہے اس کے مقدمہ المعارف ابن قتیبہ مطبوعہ مصر ص ٥٦ میں لکھا ہے
رہی بات کتاب الامامہ و السیاسہ کی جو کہ ابن قتیبہ کی طرف منسوب ہے جو ان کی تصنیف نہیں ہے اس کے بارے میں بہت سے دلائل ہیں
جن لوگوں نے ابن قتیبہ کے کتب کی فہرست دی ہے انہوں نے اس کتاب کا زکر نہیں کیا
اس کتاب کے مطالعہ سے لگتا ہے کہ مصنف دمشق کا رہنے والا ہے لیکن ابن قتیبہ بغداد کا رہاشی تھا اور وہ دینور کے علاوہ اور کہیں نہیں گیا
کتاب میں ابو یعلی کی روایات ہیں جو کہ ١٤٦ میں کوفہ کا قاضی تھا یعنی ابن قتیبہ کی پیدائش کے ٦٥ سال پہلے
مصنف نے اندلس کی فتح ایک عورت کی زبانی سنائی ہے جو کہ اس فتح میں موجود تھی حالانکہ ابن قتیبہ اس فتح کے ١٢٠سال بعد پیدا ہوا
مصنف نے فتح مراکش کو موسی بن نصیر کی طرف منسوب کیا ہے(اس وقت اسے مغرب کہتے تھے) حالانکہ مراکش کا شہر یوسف بن تاشفین نے بسایا تھا ٤٥٥ ہجری میں جو کہ ابن قتیبہ سے تقریبن ١٧٩ سال بعد کا واقعہ ہے
تو معلوم ہوا کہ یہ کتاب کسی اور نے لکھی ہے جو کہ بعد کی شاہکار ہے یعنی تب مراکش بھی وجود میں آچکا تھا اور اس کو ابن قتیبہ کی طرف منسوب کردیا ہے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ابن قتیبہ اور ہو نام ایک ہونے کی وجہ سے غلطی ہوئی ہو ۔۔ جیسے ابن جریر طبری کے بارے میں اکثر مورخین کو ہوئی ہے کیوں کہ ابن جریر طبری کے نام سے بھی دو لوگ تھے ایک ہی دور میں
اہلسنت کے جن حضرات نے اسماءالرجال پر قلم اٹھایا ان کے نزدیک الامامہ والسیاسہ کے مصنف عبداللہ بن مسلم ابن قتیبہ کذاب اور وضاع ہے اور ایسا آدمی ہے جس کا مسلک ہی متعین نہیں بعض اسے کرامیہ فرقے کے متعلق کہتے ہیں کچھ دوسرے اس کو مشتبہ کہتے ہیں ایسے غیر واضح اور کذاب آدمی کی روایت اہل سنت کے ہاں کس طرح قبول ہوسکتی ہے
قال الحاكم اجتمعت الأمة على أن القتيبي كذاب
حاکم نے کہا تمام امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ قتیبی کذاب تھا
أن الدارقطني قال كان بن قتيبة يميل إلى التشبيه منحرف عن العترة وكلامه يدل عليه وقال البيهقي كان يرى رأي الكرامية
ابن قتیبہ فرقہ مشبہ کی طرف مائل تھا اہل بیت سے کٹ چکا تھا اور اس کا کلام اس امر پر دلالت کرتا ہے امام بیہقی کہتے ہیں ابن قتیبہ کرامیہ میں سے تھا
وسمعت شيخي العراقي يقول كان بن قتيبة كثير الغلط
میں نے اپنے شیخ علامہ عراقی سے سنا وہ کہتے تھے کہ ابن قتیبہ میں غلطیوں کا انبار ہے
کتاب لسان الميزان - أحمد بن علي بن حجر العسقلاني أبو الفضل شهاب الدين - جلد ٥ - الصفحہ ١١،٩
ثابت ہوا کہ ابن قتیبہ وہ شخص ہے جس کا عقیدہ ہی خالص نہیں پھر اس پر مزید یہ کہ تمام محدثین اور اسماء الرجال کے محققین نے اسے بالاتفاق کذاب کہا ہے اور جس شخص میں اغلاط کی بھرمار ہو اس کی روایت کیسے قابل قبول ہوسکتی ہے
٨
یہ ابن عبدربہ کی کتاب ہے یہ شخص گانے بجانے کا شوق رکھتا تھا اور اس کے علاوہ یہ شیعہ بھی تھا ابن کثیر نے اسے شیعہ کہا ہے اور اس کے علاوہ شیعہ مجتہد عباس قمی نے الزریعہ میں اس کو شیعہ مصنفین مین شمار کیا ہے
ان تمام روایات کا رد پیش کرنے کے بعد اب ہمارے کچھ سوالات ہیں رافضیوں سے
سوال نمبر ١: یہ واقعہ رافضیوں کی چار مستند ترین کتب احادیث اصول اربعہ میں موجود کیوں نہیں ہے؟
سوال نمبر ٢: مسلمانوں کی چھہ مستند ترین احادیث کی کتب صحاح ستہ میں کیوں موجود نہیں؟
سوال نمبر ٣: کیا وجہ ہے کے شیعہ کے بارہ اماموں میں سے کسی ایک کا قول اس واقعہ پر نہیں ہے؟
سوال نمبر ٤: کیا وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے لے کر ٥٠٠ سال تک یہ واقعہ کسی کتاب میں نہیں ملتا؟
سوال نمبر ٥: بقول رافضیوں کے جو مولا خیبر کے دن ١٠٠ فٹ کا دروازہ اٹھا کر فضا میں اڑا دے جو ١٤٠٠ سال کے بعد اب بھی فضا میں موجو ہے وہ اپنی زوجہ پر ہونے والے ظلم پر مزاحمت نہ کرے؟
سوال نمبر ٦: وہ عرب جو بات بات پر تلوار اٹھایا کرتے تھے بنی ھاشم کہاں تھے؟
سوال نمبر ٧: گھر میں اتنے مردوں کی موجودگی میں ایک خاتون کیوں دروازہ کھولنے گئیں خاتون بھی سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا؟
اصل بات یہ ہے کہ یہ واقعہ سب سے پہلے ایک کذاب اور دجال سلیمان بن قیس نے اپنی کتاب السکیفہ میں بغیر کسی سند کے اس واقعہ کے ٥٠٠ سال بعد لکھا
Kia Imam Umar Farooq (Radi ALLAHu Ta'ala Anhu) ne Hazrat Fatima (Radi ALLAHu Ta'ala Anha) per Darwaza Giraya Tha or Unhen Shaheed Kia Tha?? by Allama Qari Tayyab Naqshbandi
Kia Hazrat Umar (Radi ALLAHu Ta'ala Anhu) ne Kisi Tarah se bhi Hazrat Fatima (Radi ALLAHu Ta'ala Anha) ko Shab o Sitam Ka Nishana Banaya Shion Ko Jawab by Allama Irfan Shah Mashadi
Hazrat Umar (R.A) per ilzam ke jawab by Allama Irfan Shah Mashadi