Difa e Ahlesunnat

Difa e Ahlesunnat

Rafzion Ki Kutub Se Rasool Allah (sallallahu alaihi wasallam) Paighamberan or Ahlebait Ki Ghustakhian





رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبران اور اہلیبیت کی گستاخیاں رافضیوں کی کتب سے سکین پیجز 

١
وعنه، عن ابن علوان، عن جعفر، عن أبيه، عن علي عليه السلام: إنه كان إذا أراد أن يبتاع الجارية يكشف عن ساقيها فينظر إليها

کتاب قرب الاسناد - الحميري القمي - الصفحة ١٠٣

ترجمہ
امام باقر عليه السلام سے مروی ہے کہ حضرت علی عليه السلام جب بھی کسی کنیز کو خریدنے کا ارادہ کرتے تھے تو وہ کنیز کی ٹانگوں کو ظاہر کرتے اور اس کا معائنہ کرتے

  
٢
 محمد بن الحسين بن أبي الخطاب، عن محمد بن سنان، عن عمار بن مروان، عن المنخل ابن جميل، عن جابر بن يزيد، عن أبي جعفر عليه السلام قال: يا جابر ألك حمار يسير بك فيبلغ بك من المشرق إلى المغرب في يوم واحد؟ فقلت: جعلت فداك يا أبا جعفر وأني لي هذا؟
فقال أبو جعفر عليه السلام: ذاك أمير المؤمنين

کتاب الاختصاص - الشيخ المفيد - الصفحة ٣٠٣

ترجمہ
امام باقر عليه السلام سے روایت ہے کہا اے جابر کیا تمہارے پاس ایسا گدھا ہے جو تمہین مشرق سے مغرب تک صرف ایک دن میں لے جائے؟ جابر نے کہا نہیں ابو جعفر عليه السلام آپ پر قربان جاؤں ایسا گدھا کہاں سے ملے گا؟ امام باقر عليه السلام نے کہا وہ امیر المومنین علی عليه السلام ہیں



یہی روایت علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں بھی بیان کی ہے

الاختصاص: ابن أبي الخطاب عن محمد بن سنان عن عمار بن مروان عن المنخل بن جميل عن جابر بن يزيد عن أبي جعفر عليه السلام قال: قال: يا جابر ألك حمار يسير بك فيبلغ بك من المشرق إلى المغرب في يوم واحد؟ فقلت: جعلت فداك يا با جعفر وأنى لي هذا؟ فقال أبو جعفر: ذاك أمير المؤمنين عليه السلام


کتاب بحار الأنوار - العلامة المجلسي - ج ٢٥ - الصفحة ٢٣٠،٢٢٩




٣

ان الله لا يستحيي ان يضرب مثلا ما بعوضة فما فوقها" کی آیت کے تحت علامہ قمی اپنی تفسیر قمی میں لکھتے ہیں

قال وحدثني أبي عن النضر بن سويد عن القسم بن سليمان عن المعلى بن خنيس عن أبي عبد الله عليه السلام ان هذا المثل ضربه الله لأمير المؤمنين عليه السلام فالبعوضة أمير المؤمنين عليه السلام وما فوقها رسول الله صلى الله عليه وآله

کتاب تفسير القمي - علي بن إبراهيم القمي - ج ١ - الصفحة ٦٢

ترجمہ
 امام جعفر صادق عليه السلام نے فرمایا اس مثال میں الله نے امیر المومنین علی عليه السلام کی مثال بیان کی ہے پس بعوضة یعنی مچھر سے مراد امیر المومنین علی عليه السلام ہیں اور مافوقھا یعنی حقارت میں مچھر سے زیادہ سے مراد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ہیں



علامہ سید الخوئی کے نزدیک علی بن ابراہیم قمی کی نقل کی ہوئی سند کے سارے راوی ثقہ ہیں اور تفسیر قمی کی تمام روایات صحیح ہیں۔

ولذا نحكم بوثاقة جميع مشايخ علي بن إبراهيم الذين روى عنهم في تفسيره مع انتهاء السند إلى أحد المعصومين عليهم السلام. فقد قال في مقدمة تفسيره
(ونحن ذاكرون ومخبرون بما ينتهي إلينا، ورواه مشايخنا وثقاتنا عن الذين فرض الله طاعتهم..) فإن في هذا الكلام دلالة ظاهرة على أنه لا يروي في كتابه هذا إلا عن ثقة، بل استفاد صاحب الوسائل في الفائدة السادسة في كتابه في ذكر شهادة جمع كثير من علماءنا بصحة الكتب المذكورة وأمثالها وتواترها وثبوتها عن مؤلفيها وثبوت أحاديثها عن أهل بيت العصمة عليهم السلام أن كل من وقع في إسناد روايات تفسير علي بن إبراهيم المنتهية إلى المعصومين عليهم السلام، قد شهد علي بن إبراهيم بوثاقته، حيث قال: (وشهد علي بن إبراهيم أيضا بثبوت أحاديث تفسيره وأنها مروية عن الثقات عن الأئمة عليهم السلام


کتاب معجم رجال الحديث - العلامة الخوئي - ج ١ - الصفحة ٤٩




٤

علي بن إبراهيم، عن هارون بن مسلم، عن مسعدة بن صدقة قال: قيل لأبي عبد الله (عليه السلام): إن الناس يروون أن عليا (عليه السلام) قال على منبر الكوفة: أيها الناس إنكم ستدعون إلى سبي فسبوني، ثم تدعون إلى البراءة مني فلا تبرؤوا مني، فقال: ما أكثر ما يكذب الناس على علي (عليه السلام)، ثم قال: إنما قال: إنكم ستدعون إلى سبي فسبوني، ثم ستدعون إلى البراءة مني وإني لعلى دين محمد، ولم يقل: لا تبرؤوا مني

کتاب الكافي - الشيخ الكليني - ج ٢ - الصفحة ١٣٤

 ترجمہ
امام جعفر صادق عليه السلام سے کہا گیا کہ لوگ یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی عليه السلام نے منبر کوفہ پر کہا لوگوں عنقریب تم سے کہا جائے گا کہ مجھے گالی دو تو تم مجھے گالی دے دینا اور اگر مجھ سے براءت ظاہر کرنے کو کہیں تو نہ کرنا امام جعفر صادق عليه السلام نے فرمایا لوگوں نے حضرت علی عليه السلام پر کیسا جھوٹ بولا ہے پھر فرمایا حضرت علی عليه السلام نے تو یہ فرمایا ہے کہ تم سے مجھے گالی دینے کو کہا جائے تو تم مجھے گالی دے دینا اور اگر مجھ سے برءات کو کہا جائے تو میں دین محمد پر ہوں یہ نہیں فرمایا کہ تم مجھ سے اظہار برءات نہ کرنا



٥

علة الصلع في رأس أمير المؤمنين " ع "، والعلة التي من أجلها سمى الأنزع البطين

حدثنا أبي ومحمد بن الحسن رضي الله عنهما قالا: حدثنا أحمد بن إدريس ومحمد بن يحيى العطار جميعا عن محمد بن أحمد بن يحيى بن عمران الأشعري باسناد متصل لم احفظه، ان أمير المؤمنين " ع " قال: إذ أراد الله بعبد خيرا رماه بالصلع فتحات الشعر عن رأسه وها أنا ذا

حدثنا محمد بن إبراهيم بن إسحاق الطالقاني رضي الله عنه قال: حدثنا الحسن بن علي العدوي، عن عباد بن صهيب، عن أبيه، عن جده، عن جعفر بن محمد " ع " قال: سأل رجل أمير المؤمنين " ع " فقال: أسألك عن ثلاث هن فيك أسألك عن قصر خلقك، وكبر بطنك، وعن صلع رأسك؟ فقال أمير المؤمنين " ع " ان الله تبارك وتعالى لم يخلقني طويلا ولم يخلقني قصيرا ولكن خلقني معتدلا أضرب القصير فأقده وأضرب الطويل فأقطه، وأما كبر بطني فان رسول الله صلى الله عليه وآله علمني بابا من العلم ففتح ذلك الباب الف باب فازدحم في بطني فنفخت عن ضلوعي

کتاب علل الشرائع - الشيخ الصدوق - ج ١ - الصفحة ١٥٩

ترجمہ
کیا وجہ ہے کہ امیر المومنین علی عليه السلام کے سر کے اگلے حصہ پر بال نہ تھے اور کیا وجہ ہے کہ ان کو الانزع البطین کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے

امیر المومنین علی عليه السلام نے ارشاد فرمایا کہ جب الله کسی بندے کے ساتھ خیر و بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے سر کے بال اڑا دیتا ہے اور یہ دیکھو میں ایسا ہی ہوں

ایک شخص نے حضرت علی عليه السلام سے کہا کہ میں آپ سے تین چیزوں کے متعلق پوچھنا چاہتا ہوں جو آپ میں موجود ہیں یہ بتایے آپ کا قد کیوں چھوٹا ہے؟ اور پیٹ کیوں بڑا ہے؟ اور سر کے سامنے کے بال کیوں نہیں ہیں؟ حضرت علی عليه السلام نے جواب دیا الله نے نہ مجھے بہت طویل بنایا اور نہ بہت فقیر بلکہ میرے قد کو مستدل بنایا تاکہ میں اپنے سے پستہ قد کے دو ٹکڑے لمبائی میں کر دوں اور اپنے سے دراز قد کی ٹانگوں پر قطا لگا دوں اب سوال یہ ہے کہ میرا پیٹ کیوں بڑا ہے تو سن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے علم کے بہت سے باب تعلیم کیے اور ہر باب سے مجھ پر علم کے ہزار باب کھل گئے اور سینے میں گنجائش نہ پا کر پیٹ میں اتر آئے



اسی طرح کی بات علامہ مجلسی نے اپنی کتاب بحار الالنوار میں بھی لکھی ہے

جناب فاطمہ زہرا عليه السلام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی رائے سب سے اولی ہے لیکن قریش کی عورتیں تو علی عليه السلام کے متعلق طرح طرح کی باتیں کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ان کا پیٹ نکلا ہوا ہے ہاتھ لمبے ہیں ان کے جوڑوں کی ہڈیاں بہت چوڑی ہیں سر کے اگلے حصہ کے بال بھی نہیں ہیں آنکھیں بڑی بڑی ہیں شیروں اور درندوں جیسے ہاتھ پاؤں ہیں ہر وقت ہنستے رہتے ہیں پھر ان کے پاس نہ مال ہے نہ دولت و حشمت بالکل مفلس اور فقیر ہیں

کتاب بحار الأنوار - العلامة المجلسي - ج ٣ - الصفحة ١٣١




٦

محمد بن يحيى، عن سعد بن عبد الله، عن إبراهيم بن محمد الثقفي، عن علي بن المعلى، عن أخيه محمد، عن درست بن أبي منصور، عن علي بن أبي حمزة عن أبي بصير، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: لما ولد النبي صلى الله عليه وآله مكث أياما ليس له لبن، فألقاه أبو طالب على ثدي نفسه، فأنزل الله فيه لبنا فرضع منه أياما حتى وقع أبو طالب على حليمة السعدية فدفعه إليها

کتاب الكافي - الشيخ الكليني - ج ١ - الصفحة ٢٨٤

ترجمہ
امام جعفر صادق عليه السلام نے فرمایا جب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تو چند دن تک ان کی والدہ کے دودھ نہ اترا ابو طالب نے ان کو اپنی چھاتی سے لگایا خدا نے دودھ اتار دیا اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعت اس سے ہوئی پھر ابوطالب نے ان کو حلیمہ سعدیہ کے سپرد کر دیا



یہی بات ابن شهر آشوب نے اپنی کتاب مناقب آل أبي طالب میں نقل کی ہے

كافي الكليني، الصادق (ع): لما ولد النبي صلى الله عليه وآله مكث أياما ليس له لبن فألقاه أبو طالب على ثدي نفسه فأنزل الله فيه لبنا فرضع منه أياما حتى وقع أبو طالب على حليمة فدفعه إليها

 کتاب مناقب آل أبي طالب - ابن شهر آشوب - ج ١ - الصفحة ٥٩

ترجمہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مختون پیدا ہوئے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کا دودھ کم تھا اس لیے ایک روز حضررت ابو طالب نے اپنی چھاتی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منہ لگایا خدا نے اس سے دودھ جاری کر دیا  



یہی بات علامہ مجلسی نے اپنی کتاب حیات القلوب میں کی ہے 

حدیث معتبر میں امام جعفر صادق عليه السلام سے منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تو چند روز تک آپ کی والدہ کے دودھ نہ اترا کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نوش فرماتے حضرت ابو طالب نے ان کا منہ اپنے پستان سے لگا دیا تو حق تعالی نے اس میں دودھ پیدا کر دیا جب تک کہ حلیمہ سعدیہ کا انتظام نہ ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سپرد نہ کیے گئے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح دودھ پیتے رہے

کتاب حیات القلوب - العلامة المجلسي - ج ٢ - الصفحة ١٣٩



٧

و كان رسول الله صلى الله عليه وآله إذا أراد أن يتزوج امرأة بعث إليها من ينظر إليها وقال: شمي ليتها فإن طاب ليتها طاب عرفها، وإن درم كعبها عظم كعثبها

کتاب من لا يحضره الفقيه - الشيخ الصدوق - ج ٣ - الصفحة ٢٥٤

ترجمہ
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی عورت سے عقد کا ارادہ کرتے تو اس کے پاس ایک عورت کو بھیجتے اور اس کو ہدایت کرتے کہ تم اس کی گردن کے کناروں کو سونگھو اگر اس کی گردن کا کنارہ طیب ہے تو اس کی خوشبو بھی طیب ہے اور اگر اس کے پاؤں کی دو ہڈیوں کے جوڑ گداز اور پر گوشت ہیں تو اس کی شرمگاہ بھی ہو گی




اسی طرح کی بات علامہ مجلسی نے اپنی کتاب حیات القلوب میں بیان کی ہے 

کلینی نے بسند معتبر روایت کی ہے کہ جب جناب رسول خدا کسی عورت کی خواستگاری فرماتے تھے تو کسی عورت کو اسے دیکھنے کے لیے بھیجتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس کی گردن کو سونگھو اگر خوشبودار ہے تو اس کا تمام بدن خوشبودار ہو گا اور پنڈلی پر غور کرے اگر وہ گوشت سے بھری ہوئ ہے تو اس کا تمام بدن پر گوشت ہو گا

کتاب حیات القلوب - العلامة المجلسي - ج ٢ - الصفحة ٨٨٦




٨

محمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد، عن علي بن النعمان، عن سعيد الأعرج قال: سمعت أبا عبد الله (عليه السلام) يقول: نام رسول الله (صلى الله عليه وآله) عن الصبح والله عز وجل أنامه حتى طلعت الشمس عليه وكان ذلك رحمة من ربك للناس الا ترى لو أن رجلا نام حتى تطلع الشمس لعيره الناس وقالوا: لا تتورع لصلواتك فصارت أسوة وسنة فإن قال رجل لرجل: نمت عن الصلاة قال: قد نام رسول الله (صلى الله عليه وآله) فصارت أسوة و رحمة رحم الله سبحانه بها هذه الأمة

کتاب الكافي - الشيخ الكليني - ج ٣ - الصفحة ١٦٥

ترجمہ
حضرت ابو عبداللہ عليه السلام نے فرمایا کہ وقت صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے اللہ نے ان کو سلایا یہاں تک کے سورج نکل آیا یہ رحمت ہے خدا کی طرف سے لوگوں پر کیا تم نہیں دیکھتے کہ جب کوئ طلوع آفتاب تک سوتا ہے تو لوگ اسے عیب لگاتے ہیں کہ تو نماز میں احتیاط سے کام نہیں لیتا پس یہ اسوہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرار پایا اگر کوئ کہے کہ تو نے نماز سونے میں کھوئ تو وہ کہے گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سو گئے تھے پس یہ اسوہ رسول اور رحمت الہی ہو گئی اس امت کے لیے



٩

از سخنان او معلوم می شود که می خواھد با معاویه صلح کند و خلافت را به او واگزارد پس همه بر خاستند گفتند: او مثل پددرش کافر شد به خیمه ان حضرت ریختند و اسباب حضرت را غارت کردند حتی مصلای حضرت را از زیر پایش کشیدند رادی مبارکش را از دو شش ربو دند

 کتاب جلاء العيون - العلامة المجلسي - الصفحة ٤٣٣،٤٣٢

ترجمہ
شیعوں نے کہا آپ (امام حسن (رضی اللہ تعالی عنہ)) کی باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) سے صلح کرنا چاہتے ہیں اور خلافت ان کو دینا چاہتے ہیں تو تمام یہ کہتے ہوے اٹھ گئے کہ یہ بھی باپ (امام علی (رضی اللہ تعالی عنہ)) کی طرح کافر ہو گیا (معاذالله) تو آپ کے خیمہ میں گئے اور اسباب کو لوٹ لیا یہاں تک کے آپ کے پاؤں کے نیچے سے مصلح بھی کھینچ لیا اور آپ کے کندھے سے چادر بھی اتار دی


اسی طرح کی بات کشف الغمہ میں بھی آئی ہے

قالوا ما ترونه يريد بما قال قالوا نظن أنه يريد أن يصالح معاوية ويسلم الأمر إليه فقالوا كفر والله الرجل وشدوا على فسطاطه فانتهبوه حتى أخذوا مصلاه من تحته

کتاب كشف الغمة - ابن أبي الفتح الإربلي - ج ٢ - الصفحة ٣٣٩،٣٣٨

ترجمہ
 شیعہ کہنے لگے لگتا ہے یہ (امام حسن (رضی اللہ تعالی عنہ)) معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) سے صلح کرنا چاہتے ہیں اور حکومت دینا چاہتے ہیں تو کہنے لگے یہ کافر ہو گئے (معاذالله) پھر خیمہ پر حملہ کر دیا نیچے قدموں سے مصلح بھی کھینچ لیا


اور کتاب تزكرة الاطهار میں بھی آئی ہے

کتاب تزكرة الاطهار - الشيخ المفيد - الصفحة ٢٣٢



١٠
 
حدثني محمد بن أحمد أبو عبيد قال: حدثنا الفضل بن الحسن المصري قال: حدثنا محمد بن عمرويه قال: حدثنا مكي بن إبراهيم قال: حدثنا السري بن إسماعيل عن الشعبي عن سفيان بن أبي ليلى دخل حديث بعضهم في حديث بعض وأكثر اللفظ لأبي عبيدة قال: أتيت الحسن بن علي حين بايع معاوية فوجدته بفناء داره عنده رهط فقلت: السلام عليك يا مذل المؤمنين فقال عليك السلام يا سفيان انزل فنزلت فعقلت راحلتي ثم اتيته فجلست إليه فقال: كيف قلت يا سفيان: فقلت: السلام عليك يا مذل رقاب المؤمنين . فقال: ما جر هذا منك إلينا ؟ فقلت: أنت والله - بأبي أنت وأمي - أذللت رقابنا حين أعطيت هذا الطاغية البيعة وسلمت الأمر إلى اللعين بن اللعين بن آكلة الأكباد ومعك مائة الف كلهم يموت دونك . وقد جمع الله لك امر الناس
 
كتاب مقاتل الطّالبين - لأبو الفرج الأصفهاني - الصفحة ٧٦،٧٥
 
ترجمہ
سفیان کہتے ہیں میں نے حسن بن علی (رضی اللہ تعالی عنہ) سے جب انہوں نے معاویہ بن سفیان (رضی اللہ تعالی عنہ) کی بیعت کی کہا السلام علیکم مومنین کو ذلیل کرنے والے حسن بن علی (رضی اللہ تعالی عنہ) نے مجھ سے بیٹھنے کا کہا تو میں بیٹھا پھر انہوں نے پوچھا تم نے کیا کہا؟ تو سفیان بولا مومنین کا سر شرم سے نیچے جھکانے والے اس پر حسن بن علی (رضی اللہ تعالی عنہ) نے پوچھا یہ کیوں کہا میرے بارے میں تو سفیان نے جواب دیا آپ نے جو حد سے بڑھ کر اس کی بیعت کی جب کے آپ کے پاس ایک لاکھ کا لشکر تھا لڑنے کے لیے
 

یہی روایت بحار النوار میں علامہ مجلسی نے بھی نقل کی ہے
قال أبو الفرج الأصفهاني: حدثني محمد بن أحمد: أبو عبيد عن الفضل بن الحسن البصري عن أبي عمرويه عن مكي بن إبراهيم عن السري بن إسماعيل عن الشعبي عن سفيان بن الليل قال أبو الفرج: وحدثني أيضا محمد بن الحسين الأشناني وعلي بن العباس عن عباد بن يعقوب عن عمرو بن ثابت عن الحسن بن الحكم عن عدي بن ثابت عن سفيان قال: أتيت الحسن بن علي ع حين بايع معاوية فوجدته بفناء داره وعنده رهط فقلت: السلام عليك يا مذل المؤمنين قال: وعليك السلام يا سفيان [ انزل ] فنزلت فعقلت راحلتي ثم أتيته فجلست إليه فقال: كيف قلت يا سفيان ؟ قال: قلت: السلام عليك يا مذل المؤمنين فقال: ما جر هذا منك إلينا ؟ فقلت: أنت والله بأبي أنت وأمي أذللت رقابنا حين أعطيت هذا الطاغية البيعة وسلمت الأمر إلى اللعين ابن آكلة الأكباد ومعك مائة ألف كلهم يموت دونك وقد جمع الله عليك أمر الناس

کتاب بحار الأنوار - العلامة المجلسي - ج ٤٤ - الصفحة ٣٠٨



١١

حسن و حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فرط محبت کا پتہ اس روایت سے بھی چلتا ہے جس کو یحیی ابن کثیر اور سفیان ثوری نے اپنے اپنے اسناد سے بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ممبر پر تھے کہ حسن و حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے رونے کی آواز کان میں آئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم فورا بیتاب ہو کر اٹھے اور ان کے پاس پہنچے پھر فرمایا اے لوگو اولاد سوائے فتنہ کے اور کچھ نہیں ہے میں ان دونوں کی طرف اٹھ کر بھاگا تو میرے ہوش و حواس گم تھے

کتاب بحار الأنوار - العلامة المجلسي - ج ١٠ - الصفحة ٩٤
 


١٢

أحمد بن محمد، عن عمر بن عبد العزيز، عن غير واحد منهم بكار بن كردم وعيسى بن سليمان، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: سمعناه وهو يقول:
جاءت امرأة شنيعة إلى أمير المؤمنين عليه السلام وهو على المنبر وقد قتل أباها وأخاها، فقالت: هذا قاتل الأحبة فنظر إليها فقال لها: يا سلفع يا جريئة يا بذية يا مذكرة، يا التي لا تحيض كما تحيض النساء


کتاب بحار الأنوار - العلامة المجلسي - ج ٤١ - الصفحة ١٨١

ترجمہ
حضرت ابو عبداللہ عليه السلام سے روایت ہے وہ کہتے ہیں ایک عورت امیر المومنین علی عليه السلام کی طرف بڑھی اور کہنے لگی اے دوستوں کے قاتل چنانچہ حضرت علی عليه السلام نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا اے وہ عورت جسے حیض نہیں آتا اے مردوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے والی اے بدزبان عورت اے ہجڑے اے ایسی عورت جسے عام عورتوں کی طرح حیض نہیں آتا اے ایسی عورت جس کے فرج (شرمگاہ) پر ایک زائد عضو ہے

 کیا حضرت علی عليه السلام اس طرح کی بے حودہ گفتگو کر سککتے ہیں؟ کیا امام جعفر صادق عليه السلام اس طرح کی گھٹیا بات روایت کرسکتے ہیں؟ ہر گز نہیں




١٣

بسند ہائے معتبر روایت کی ہے ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ اور ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے جب جعفر طیار رضی اللہ تعالی عنہ مدینہ میں آئے ایک کنیز کو بطور تحفہ اپنے بھائی علی ابن ابی طالب عليه السلام کے پاس بھیجا اور وہ کنیز جناب امیر عليه السلام کی خدمت کرتی تھی ایک دن جناب فاطمہ عليه السلام گھر میں آئیں اور دیکھا حضرت علی عليه السلام کا سر اس کنیز کے دامن پر ہے جب یہ حالت ملاحظہ فرمائی متغیر ہو گئیں اور پوچھا اس کنیز کے ساتھ کیا تم نے کوئی تعلق کیا ہے؟ حضرت علی عليه السلام نے فرمایا خدا کی قسم اے دختر محمد عليه السلام میں نے اس کے ساتھ کوئی تعلق قائم نہیں کیا اب جو کچھ تم کو منظور ہو بیان کرو میں بجا لاؤں جناب سیدہ عليه السلام نے کہا مجھے میرے پدر بزرگوار کے گھر جانے کی اجازت دو جناب امیر عليه السلام نے فرمایا میں نے اجازت دی

کتاب جلاء العيون - العلامة المجلسي - ج ١ - الصفحة ٢١٢



١٤

جب حضرت فاطمہ عليه السلام اپنے خانہ اقدس میں پہنچ گئیں تو مصلحتہ دلیرانہ سخت خطبات جناب امیر حضرت علی عليه السلام سے کیے کہ آپ اس جنین کی مانند جو رحم میں ہوتا ہے پردہ نشین ہو گئے اور خوفزدہ لوگوں کی طرح گھر میں بھاگ آئے۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے اپنے کو ذلیل کردیا جس روز کے اپنے رعب جلال سے ہاتھ اٹھا لیا بھیڑیے پھاڑے کھاتے ہیں اور جو چاہتے ہیں لے جاتے ہیں اور آپ اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرتے کاش اس ذلت و خواری سے پہلے میں مر چکی ہوتی ہر صبح و شام مجھ پر وائے ہو میرا محل مٹ گیا میرا مددگار سست ہو گیا

کتاب حق الیقین - العلامة المجلسي - ج ١ - الصفحة ٢٢٩
 



١٥

بسند حسن جناب صادق عليه السلام سے روایت کی ہے کہ حلال چیز بیان کرنے میں کوئی غیرت نہیں کرنی چاہیے کیوں کہ جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شب زفاف جناب علی عليه السلام اور جناب فاطمہ عليه السلام سے فرمایا جب تک میں نہ آلوں کام نہ کرنا جب حضرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے دونوں پاؤں دونوں صاحبوں کے رخت خواب میں درانہ فرمائے

کتاب جلاء العيون - العلامة المجلسي - ج ١ - الصفحة ٢١١




١٦

بسند معتبر ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب میں معراج میں گیا تو فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرا ان سب نے علی بن ابی طالب عليه السلام کے بارے میں دریافت کیا یہانتکہ میں نے یہ گمان کیا کہ علی عليه السلام کا نام میرے نام سے زیادہ آسمانوں پر مشہور ہے

کتاب حیات القلوب - العلامة المجلسي - ج ٢ - الصفحة ٤٥١




١٧

وروي انه كان ينزل عليه الوحي في اليوم الشديد البرد فيفصم عنه، وان جبينه لينفصد عرقا. وروي انه كان إذا نزل عليه الوحي كرب  لذلك ويربد وجهه ونكس رأسه ونكس أصحابه رؤسهم منه، ومنه يقال: برحاء الوحي قال ابن عباس: كان النبي إذا نزل عليه القرآن تلقاه بلسانه وشفتيه كان يعالج من ذلك شدة 
 أبو ميسرة وبريدة: ان النبي صلى الله عليه وآله كان إذا انطلق بارزا سمع صوتا: يا محمد، فيأتي خديجة فيقول: يا خديجة قد خشيت أن يكون خالط عقلي شئ اني إذا خلوت أسمع صوتا وأرى نورا
محمد بن كعب وعائشة: أول ما بدأ به رسول الله من الوحي الرؤيا الصادقة وكان يرى الرؤيا فتأتيه مثل فلق الصبح ثم حبب إليه الخلا فكان يخلو بغار حري فسمع نداء: يا محمد، فغشى عليه، فلما كان اليوم الثاني سمع مثله نداء فرجع إلى خديجة فقال زملوني زملوني فوالله لقد خشيت على عقلي

 کتاب مناقب آل أبي طالب - ابن شهر آشوب - ج ١ - الصفحة ٧٢،٧١

ترجمہ
اگر سردی کے زمانے میں وحی آتی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتنا زور پڑتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پسینہ پسینہ ہو جاتے تھے چہرہ متغیر ہو جاتا تھا سر جھک جاتا تھا اور اصحاب کے سر بھی جھک جاتے تھے جب نزول قرآن ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان اور ہونٹوں سے پڑھتے تھے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہوتی تھی اور سر درد کرنے لگتا تھا
ابو میسرہ اور بریدہ سے مروی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم چلتے تھے تو آواز آتی تھی یا محمد جناب خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا سے کہا مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میری عقل میں کچھ فتور ہے جب تنہائی میں ہوتا ہوں تو ایک آواز سنتا ہوں اور ایک نور دیکھتا ہوں
محمد بن کعب سے مروی ہے کے سب سے پہلے وحی رویائے صادقہ کی صورت میں ہوئی پھر خلوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مرغوب ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں رہنے لگے ایک روز آواز آئی یا محمد حضور صلی اللہ علیہ وسلم غش ہو گئے دوسرے دن پھر ایسی ہی آواز سنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کانپتے ہوئے گھر آئے اور جناب خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا سے کہا کہ مجھے کمبل اوڑھاؤ مجھے اپنے ہوش میں فتور معلوم ہوتا ہے




١٨

فقال له بعضنا: يعرف هذا ولد الحسن؟ قال: نعم كما يعرفون أن هذا ليل ولكنهم يحملهم الحسد ولو طلبوا الحق بالحق لكان خيرا لهم ولكنهم يطلبون الدنيا

کتاب الكافي - الشيخ الكليني - ج ١ - الصفحة ١٨٥

ترجمہ
امام جعفر صادق عليه السلام فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا اولاد امام حسن اوقاف کے ان ولیوں کو جانتی تھی فرمایا ضرور جانتے تھے لیکن حسد ان پر غالب آگیا اگر وہ حق کو حق کے ساتھ طلب کرتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا لیکن انہوں نے دنیا کو طلب کیا  



اسی طرح کی بات کتاب الاحتجاج میں بھی موجود ہے

امام جعفر صادق عليه السلام سے روایت کی گئی ہے کہ امام عليه السلام نے فرمایا ہم میں کوئی نہیں ہے مگر خود اس کے گھر والوں میں کوئی اس کا دشمن ضرور ہے کہا گیا کیا اولاد امام حسن عليه السلام حق نہیں پہچانتے ہیں؟ امام عليه السلام نے فرمایا ہاں لیکن حسد و کینہ ان کو روکتا ہے

کتاب الاحتجاج - الشيخ الطبرسي - ج ٢ - الصفحة ١٧٧




١٩

بسند معتبر امام باقر عليه السلام سے منقول ہے کہ اگر آدم عليه السلام گناہ نہ کرتے تو کوئی مومن ہرگز گناہ نہ کرتا اور اگر اللہ آدم عليه السلام کی توبہ قبول نہ کرتے تو ہرگز کسی گناہ گار کی توبہ قبول نہ ہوتی

کتاب حیات القلوب - العلامة المجلسي - ج ١ - الصفحة ٩٧




٢٠

خدا نے آدم عليه السلام سے محمد و آل محمد عليه السلام کے لیے عہد لے لیا تھا لیکن انہوں نے اس کی پرواہ نہ کی اور اس امر کا یقین نہیں کیا کہ ان کی عظمت بہت زیادہ ہے جس کے نتیجہ میں وہ جنت سے نکالے گئے۔

الغرض آدم عليه السلام نے خدا کے عہد کو بھلا دیا اور بنظر غیط محمد و آل محمد عليه السلام کو دیکھا اور ان کے مدارج کی تمنا کی ایا اپنے کو ان کے شجرہ نسب تک پہنچانے کی سعی کی جس کے نتیجہ میں شیطان ان پر مسلط ہوا اور وہ جنت سے نکال دیے گئے

یہ ظاہر ہے کہ حضرت آدم عليه السلام کو کوئی خاص سزا نہیں دی گئی بلکہ جنت سے نکال کر انہیں نعمات سے محروم کر دیا گیا اس طرح آدم عليه السلام نے خود اپنا نقصان کیا اور ترک اولی کے مرتکب ہوئے یعنی اگر ایسا نہ کرتے تو اچھے رہتے اب جبکہ کر گزرے تو خدا کے گنہگار نہیں ہوئے جس سے عصمت پر حرف آئے۔

کتاب تاریخ اسلام - العلامة نجم الحسن - الصفحة ٨٠




٢١

امام باقر یا امام صادق عليه السلام سے روایت ہے کہ حضرت آدم عليه السلام نے کہا پروردگار تو نے مجھ پر شیطان کو مسلط کیا اور اس کو خون کی مانند میرے بدن میں جاری کیا تو میرے لیے بھی وہ بات قرار دے کہ اس کے شر سے نجات پا سکوں

کتاب جلاء العيون - العلامة المجلسي - ج ٢ - الصفحة ٣٣١




٢٢

عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد، عن الحسين بن سعيد، عن عبد الله بن بحر، عن ابن مسكان، عن عبد الرحمن بن أبي عبد الله، عن محمد بن مسلم قال: سمعت أبا عبد الله عليه السلام يقول: الأئمة بمنزلة رسول الله صلى الله عليه وآله إلا أنهم ليسوا بأنبياء ولا يحل لهم من النساء ما يحل للنبي صلى الله عليه وآله فأما ما خلا ذلك فهم فيه بمنزلة رسول الله صلى الله عليه وآله

کتاب الكافي - الشيخ الكليني - ج ١ - الصفحة ١٦١

راوی کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق عليه السلام سے سنا کہ آئمہ رسول اللہ عليه السلام جیسے ہیں مگر وہ نبی نہیں ہیں ان کے لیے اتنی عورتیں حلال نہیں جتنی نبی کے لیے ہیں اس کے علاوہ جتنی فضیلتیں اور خصوصیتیں حضور عليه السلام کو دی گئی ہیں سب میں آئمہ رسول اللہ عليه السلام کے ساتھ شریک ہیں۔



اسی طرح کی بات حضرت علی عليه السلام کے لیے کتاب خورشید خاور میں بیان کی گئی ہے

امیر المومنین علی عليه السلام تمام فضائل و کمالات اور صفات میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے شریک تھے 




٢٣

 بسند حسن حضرت صادق عليه السلام سے روایت ہے کہ بنی اسرائیل کو گمان تھا کہ موسی عليه السلام آلہ مروی نہیں رکھتے اور جب موسی عليه السلام غسل کرنا چاہتے تھے ایسے مقام پر جاتے تھے جہاں ان کو کوئی دیکھ نہیں سکتا تھا ایک روز ایک نہر کے کنارے غسل کر رہے تھے اور اپنے کپڑوں کو پتھر پر رکھ دیا تھا خدا نے پتھر کو حکم دیا کہ موسی عليه السلام سے دور ہو جائے موسی عليه السلام اس کے پیچھے چلے یہاں تک کہ بنی اسرائیل کی نگاہ موسی عليه السلام پر پڑی تو ان لوگوں نے سمجھا کہ جیسا وہ گمان کرتے تھے نہیں ہے۔

کتاب حیات القلوب - العلامة المجلسي - ج ١ - الصفحة ٣٧٩




٢٤

 العلة التي من أجلها صار الحجر أسود بعد ما كان أبيض والعلة التي من أجلها لا يبرء ذو عاهة يمسه الآن

حدثنا أبي رضي الله عنه قال حدثنا سعد بن عبد الله عن أحمد بن محمد ابن عيسى عن عبد الرحمان بن أبي نجران والحسين بن سعيد جميعا عن حماد بن عيسى عن حريز بن عبد الله عن أبي عبد الله عليه السلام قال كان الحجر الأسود أشد بياضا من اللبن فلو لا ما مسه من أرجاس الجاهلية ما مسه ذو عاهة إلا برء

 کتاب علل الشرائع - الشيخ الصدوق - ج ٢ - الصفحة ٤١٨

وہ سبب جس کی بنا پر حجر اسود پہلے سفید تھا بعد میں سیاہ کیسے ہو گیا نیز اس کا سبب کہ اب کوئی بیمار اس کو مس کرتا ہے تو اچھا نہیں ہوتا

امام جعفر صادق عليه السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ حجر اسود پہلے دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا اگر یہ جاہلیت کی رجس اور پلیدگی سے مس نہ ہوا ہوتا تو جو بیمار بھی اس کو مس کرتا وہ شفا یاب ہوتا۔




٢٥

فکل نبي من الانبیاء انما جاء لا فامة العدل وکان ھدفه ھو تطبیقه في العالم لکنه لم ینجح وحتی خاتم الانبیاء (ص) الذي کان قد جاء لا صلاح البشر و تھذیبھم وتطبیق العدالة فانه ھو ایضا لم یوفق وان من سینجح بکل معني الکلمة ویطبق العدالة في جمیع ارجاء العالم ھو المھدي المنتظر

کتاب مختارات من احادیث و خطابات الامام الخمیني - ج ٢ - الصفحة ٤٢

ترجمہ
١٥ شعبان کی مناسبت سے ایرانی ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر خمینی کا ایرانی عوام سے خطاب
ہفتہ ٧-٤-١٣٥٩ ١٥-٨-١٤٠٠ھ ٢٨-٦-١٩٨٠ء

بلاشبہ تمام انبیاء نظام عدل کو قائم کرنے آئے تھے اس کی بعثت کا مقصد اس نظام کو عالم میں نافظ کرنا تھا لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے یہاں تک کہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم جو انسانیت کی اصلاح کرنے اس کو تہذیب سکھانے اور نظام عدل کو قائم کرنے آئے تھے وہ بھی ایسے ہی کامیاب نہ ہوئے اور بلاشبہ جو اس مقصد میں پورے طور سے کامیاب ہو گے اور نظام عدل کو سارے عالم میں نافظ کریں گے وہ امام المھدی المنتظر ہیں



٢٦

عدة من أصحابنا، عن سهل بن زياد، عن علي بن أسباط، عن عمه يعقوب بن سالم رفعه قال: قال أمير المؤمنين (عليه السلام): لا تعلموا نساءكم سورة يوسف ولا تقرؤوهن إياها فإن فيها الفتن وعلموهن سورة النور فإن فيها المواعظ

کتاب الكافي - الشيخ الكليني - ج ٥ - الصفحة ٣١٢

ترجمہ
امیر المومنین عليه السلام نے فرمایا اپنی عورتوں کو سورہ یوسف کی تعلیم نہ دیا کرو اور نہ ہی وہ اس کی تلاوت کریں کیوںکہ اس میں فتنہ ہے اور انہیں سورہ نور کی تعلیم دو کیوںکہ اس میں نصیحتیں ہیں۔




٢٧

وان آدم عليه السلام لما أكرمه الله تعالى ذكره باسجاد ملائكته وبادخاله الجنة قال في نفسه: هل خلق الله بشرا أفضل منى؟ فعلم الله عز وجل ما وقع في نفسه فناداه ارفع رأسك يا آدم وانظر إلى ساق العرش فرفع آدم رأسه فنظر إلى ساق العرش فوجد عليه مكتوبا: لا اله إلا الله محمد رسول (ص) وعلي بن أبي طالب عليه السلام أمير المؤمنين وزوجته فاطمة سيده نساء العالمين والحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة فقال آدم عليه السلام: يا رب من هؤلاء؟ فقال عز وجل: هؤلاء من ذريتك وهم خير منك ومن جميع خلقي ولولاهم ما خلقتك ولا خلقت الجنة والنار ولا السماء والأرض فإياك ان تنظر إليهم بعين الحسد فأخرجك عن جواري فنظر إليهم بعين الحسد وتمنى منزلتهم فتسلط عليه الشيطان حتى اكل من الشجرة التي نهى عنها وتسلط على حواء لنظرها إلى فاطمة عليها السلام بعين الحسد حتى اكلت من الشجرة كما اكل آدم عليه السلام فأخرجهما الله عز وجل عن جنته فأهبطهما عن جواره إلى الأرض

کتاب عيون أخبار الرضا (ع) - الشيخ الصدوق - ج ١ - الصفحة ٢٧٥،٢٧٤

ترجمہ
جب اللہ نے حضرت آدم عليه السلام کو عزت و عظمت عطا کی اور ملائکہ سے ان کا سجدہ کرلیا اور انہیں جنت میں بھیج دیا تو انہوں نے اپنے دل میں خیال کیا : کیا اللہ نے مجھ سے افضل کسی کو بنایا ہے؟ اللہ نے اس کے دلی خیال کا مشاہدہ کیا اور فرمایا : آدم عليه السلام تم سر اٹھا کر عرش کے کنارے پر نگاہ کرو جب حضرت آدم عليه السلام کی نگاہ عرش کے کنارے پر پڑی تو وہاں یہ کلمات لکھے ہوئے تھے لا اله إلا الله محمد رسول (ص) وعلي بن أبي طالب عليه السلام أمير المؤمنين وزوجته فاطمة سيده نساء العالمين والحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة حضرت آدم عليه السلام نے کہا پروردگار یہ کون لوگ ہیں؟ اللہ نے فرمایا آدم عليه السلام یہ تیری اولاد ہیں اور یہ نہ صرف تم سے بلکہ میری تمام مخلوق سے افضل ہیں خبردار انہیں نگاہ حسد سے نہ دیکھنا ورنہ میں تمہیں اپنی ہمسائگی سے نکال دوں گا حضرت آدم عليه السلام نے ذوات عالیہ کو نگاہ حسد سے دیکھا اور اپنے لیے ان کے مقام و منزلت کی خواہش کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیطان ان پر غالب ہو گیا اور انہوں نے شجرہ ممنوعہ کا پھل کھایا اور حضرت حوا عليه السلام نے بھی حضرت زہرہ عليه السلام کو حسد کی نگاہ سے دیکھا تھا اسی لیے ان پر بھی شیطان غالب آگیا تھا اور انہوں نے بھی حضرت آدم عليه السلام کے ساتھ مل کر شجرہ ممنوعہ کا پھل کھایا اور اسی وجہ سے اللہ نے انہیں اپنے جوار رحمت سے نکال کر زمین پر بھیج دیا۔



یہی روایت کتاب أنوار الولاية میں بھی ملتی ہے

کتاب أنوار الولاية - الملا زين العابدين الكلبايكاني - الصفحة ١٥٣



اسی طرح کی بات علامہ مجلسی نے اپنی کتاب حیات القلوب میں بیان کی ہے 

جب خدا نے آدم عليه السلام کو گرامی کیا اور ملائکہ نے ان کو سجدہ کیا اور وہ بہشت میں داخل ہوئے ان کو خیال ہوا کہ آیا خدا نے کسی بشر کو مجھ سے بھی بہتر خلق فرمایا ہے؟ خدا جانتا تھا کہ ان کہ دل میں کیا گذرا ہے ان کو ندا کی اے آدم عليه السلام اپنا سر اٹھا کر میرے ساق عرش پر دیکھو آدم عليه السلام نے دیکھا کہ ساق عرش پر لکھا ہے لا اله إلا الله محمد رسول (ص) وعلي بن أبي طالب عليه السلام أمير المؤمنين وزوجته فاطمة سيده نساء العالمين والحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة عرض کی یہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا یہ تیری ذریت سے ہیں اور تجھ سے اور میری تمام مخلوق سے بہتر ہیں اگر یہ نہ ہوتے تو نہ تجھ کو پیدا کرتا نہ بہشت و دوزخ کو نہ آسمان و زمیں کو لہذا ان کی جانب ہر گز بہ نگاہ حسد نہ دیکھنا ورنہ اپنی جوار رحمت سے تجھ کو باہر کر دوں گا لیکن آدم عليه السلام نے ان کو از راہ حسد دیکھا اور ان کے رتبہ کی آرزو کی تو ان پر شیطان مسلط ہوا یہاں تک کہ اس درخت کا پھل کھایا جس کی ممانعت کی گئی تھی اور شیطان حوا عليه السلام پر مسلط ہوا انہوں نے فاطمہ زہرہ عليه السلام کو حسد کی نگاہ سے دیکھا اور اسی درخت کا پھل کھایا جس سے آدم عليه السلام نے کھایا تھا پس خدا نے ان کو بہشت سے باہر نکالا اور اپنی جوار رحمت سے علیحدہ کر کے زمین پر بھیجا۔

کتاب حیات القلوب - العلامة المجلسي - ج ١ - الصفحة ٩٧




٢٨

طبری امامی نے کتاب المعصلات کے حوالے سے محمد بن ثابت سے نقل کیا کہ ایک مرتبہ میں امام زین العابدین عليه السلام کی خدمت میں موجود تھا اتنے میں عبداللہ بن عمر آیا اور اس نے آپ عليه السلام سے کہا
مجھے اطلاع ملی ہے کہ آپ
عليه السلام کہتے ہیں کہ حضرت یونس عليه السلام پر آپ کے دادا کی ولایت پیش کی گئی تھی مگر انہوں نے تردد کا اظہار کیا تھا جس کی وجہ سے اللہ نے انہیں شکم ماہی میں قید کیا تھا
امام
عليه السلام نے فرمایا اس میں تعجب کی کون سی بات ہے؟
اس نے کہا میں اس بات کو مان نہیں سکتا
آپ
عليه السلام نے فرمایا تو کیا تو اس مچھلی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہے؟
اس نے کہا جی ہاں
آپ
عليه السلام نے فرمایا اچھا بیٹھ جاؤ وہ بیٹھ گیا آپ نے اپنے غلام سے فرمایا کہ دو کپڑے کی پٹیاں لے آؤ غلام دو پٹیاں لے آیا آپ عليه السلام نے مجھ سے فرمایا کہ تم ایک پٹی عبداللہ بن عمر کی آنکھوں پر باندھ دو اور ایک پٹی خود اپنی آنکھوں پر باندھ لو
نوکر نے حکم کی تعمیل کی پھر آپ
عليه السلام نے کوئی کلام کیا کچھ دیر بعد فرمایا کہ اب تم دونوں اپنی اپنی پٹیاں کھول لو
ہم نے پٹیاں کھولیں تو ہم نے اپنے آپ کو ایک چادر پر بیٹھا ہوا دیکھا اور ہم نے اپنے آپ کو ساحل سمندر پر پایا پھر آپ
عليه السلام نے ایک کلام کی جس کی وجہ سے سمندر کی مچھلیاں ظاہر ہوئیں ان کے درمیان ایک بہت بڑی مچھلی نمودار ہوئی
آپ
عليه السلام نے اس سے فرمایا تیرا نام کیا ہے؟
اس نے کہا میرا نام نون ہے اور میں نے ہی یونس پیغمبر کو نگلا تھا
آپ
عليه السلام نے فرمایا یونس عليه السلام کو تیرے شکم میں قید کیوں کیا تھا؟
مچھلی نے کہا اس کے سامنے آپ کے والد (علی) کی ولایت پیش کی گئی تھی اس نے اس کا انکار کیا اسی لیے اسے میرے شکم میں قید کیا گیا تھا اور جب اس نے میرے شکم میں رہ کر ولایت علی کا اقرار کیا اور اسے ان کی ولایت کا یقین آگیا تو اللہ نے مجھے حکم دیا میں نے اسے باہر اگل دیا تھا اور جو بھی اہلبیت کی ولایت کا منکر ہو گا اللہ اسے نار دوزخ کے سپرد کر دے گا جہاں وہ ہمیشہ رہے گا

کتاب معجزات آل محمد - علامہ سید ہاشم البحرانی - ج ٢ - الصفحة ٣٢٨،٣٢٧




٢٩

اللہ نے اپنے پیغمبر کو مخاطب کر کے فرمایا اے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ نہ ہوتے تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا اور اگر علی عليه السلام نہ ہوتے تو تجھے بھی پیدا نہ کرتا اور اگر فاطمہ عليه السلام نہ ہوتیں تو تم دونوں کو بھی پیدا نہ کرتا

کتاب سیدہ خدیجہ الکبری - علامہ محمدی اشتہاروی - الصفحة ٢٢٧




٣٠

ابن بابویہ نے معتبر سندوں کے ساتھ حضرت امام رضا عليه السلام سے روایت کی ہے کہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز کسی کام سے زید بن حارثہ بن شراجیل کلبی کے گھر تشریف لے گئے جب مکان کے اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ زید کی زوجہ زینب غسل کر رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو غسل کی حالت میں مشاہدہ فرمایا۔

کتاب حیات القلوب - العلامة المجلسي - ج ٢ - الصفحة ٨٩١




٣١

کلینی نے بسند صحیح حضرت صادق عليه السلام سے روایت کی ہے کہ ایک روز ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہ جناب ام سلمہ کے پاس آئے اور کہا آپ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے دوسرے مرد کی زوجہ تھیں بتایے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کے مقابلے میں قوت مجامعت میں کیسے ہیں؟ ام سلمہ نے کہا وہ بھی مثل اور مردوں کے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اتر کر دولت سرا تشریف لے گئے صبح ہوئی تو جبرائیل عليه السلام نازل ہوئے اور بہشت کے ہرلیسہ کا ایک پیالہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لائے اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو آپ کے لیے حوروں نے تیار کیا ہے اس کو آپ نوش فرمائیں اور آپ اور علی عليه السلام اور ان کے فرزندوں کے سوا کوئی نہ کھائے کیوںکہ آپ لوگوں کے سوا کسی میں یہ صلاحیت نہیں غرض جناب رسول خدا، علی، فاطمہ، حسن اور حسین بیٹھے اور اس ہرلیسہ سے تناول فرمایا اس سبب سے خداوند عالم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چالیس مردوں کی قوت مجامعت کرامت فرمائی اس کے بعد ایسا تھا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے ایک شب میں اپنی تمام بیویوں سے مقاربت فرماتے تھے۔

کتاب حیات القلوب - العلامة المجلسي - ج ٢ - الصفحة ٨٩٦،٨٩٥




٣٢

حضرت علی عليه السلام سے جب یہ سوال کیا گیا تھا کہ آپ کی فضیلت انبیاء سابقین پر کیا ہے جبکہ ان انبیاء کو بلند معجزات معروفہ عطا کیے گئے تو آپ عليه السلام نے فرمایا میں حضرت ابراہیم عليه السلام کے ساتھ تھا جبکہ انہیں آگ میں ڈالا گیا اور میں نے ہی آگ کو گلزار بنایا اور میں جناب نوح عليه السلام کے ساتھ کشتی میں تھا میں نے ہی طوفان سے بچایا میں جناب موسی عليه السلام کے ساتھ تھا میں نے انہیں تورات پڑھائی اور میں نے ہی جناب عیسی عليه السلام کو نطق عطا کیا اور گہوارہ میں انجیل پڑھائی اور میں ہی حضرت یوسف عليه السلام کے ساتھ کنویں میں تھا میں نے ان کو مکر و فریب برادران سے پناہ دی اور میں ہی سلیمان پیغمبر عليه السلام کے ساتھ تھا میں نے تخت سلیمان کے لیے ہواؤں کو تابع فرمان بنا دیا تھا۔

کتاب حقائق الوسائط - العلامة بشیر انصاری - ج ٢ - الصفحة ٤٤١




٣٣

ملت اسلامیہ کا تہتر فرقوں میں تقسیم ہو جانا اس امر کی کھلی ہوئی دلیل ہے کہ قرآن مجید نہ محافظ شریعت ہے اور نہ ہدایت کے لیے کافی ہے کیونکہ ملت اسلامیہ کے تہتر کے تہتر فرقے قرآن مجید سے متمسک ہیں

کتاب احسن العقاید - العلامة حلی - الصفحة ٢٣٨




٣٤

امام فرماتے ہیں ہم ہیں رب عرش و کرسی کے اور ہم ہیں رب آسمان و زمین کے اور ہم ہیں انبیاء اور ملائکہ کے اور ہم ہیں رب لوح و قلم کے اور ہم ہیں رب جنان اور حور العین کے اور ہم ہی ہیں رب شمس و قمر کواکب اور حجاب ہائے قدس و جلال و سرداق عظمت و کمال کے اور ہم ہی ہیں سب چیزوں کے رب اور خداوند الکریم رب الارب ہے
 
کتاب جلاء العيون - العلامة المجلسي - ج ٢ - الصفحة ٢٣




٣٥

ساقی حوض کوثر مولا علی عليه السلام ہیں یعنی قرآن نے جس کو رب کہا وہ ساقی کوثر علی عليه السلام ہے انبیاء نے تبلیغ فرمائی توحید کی معبود کی اور جب اللہ کی آفات آئیں تو پکارا ہے رب (علی) کو اب بھی مصائب میں پکارنا اپنے اپنے حالات کے تحت علی کو سنت انبیاء اور قرآن پاک ہے اور رب کا معنی ہیں مشکل کشا پرورش کنندہ نگہبان

کتاب جلاء العيون - العلامة المجلسي - ج ٢ - الصفحة ٦٦




٣٦

چودہ ستارے سے مراد حضرات چہاردہ معصومین ہیں جن میں سر فیل انبیاء خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم و شفیع روز جزا خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرہ عليه السلام اور بارہ امام شامل ہیں یہ وہ ذوات ہیں جو خالق کائنات کی طرح بے مثل و بے نظیر ہیں

کتاب چودہ ستارے - العلامة نجم الحسن کراروی - الصفحة ٢




٣٧

اور بعض معتبر حدیثوں سے انشاءاللہ معلوم ہو گا جو اس کے بعد بیان ہونگی کہ مرتبہ امامت مرتبہ پیغمبری سے بالاتر ہے

کتاب حیات القلوب - العلامة المجلسي - ج ٣ - الصفحة ١٠




٣٨

پس جناب امیر حضرت علی عليه السلام اور دیگر اہل بیت رسول بھی بعد رسول مثل رسول بقول اس آیت کے ولی ہیں اور تمام انبیاء سے افضل ہیں

کتاب جلاء العيون - العلامة المجلسي - ج ٢ - الصفحة ٢٠




٣٩

علی بن ابی طالب عليه السلام سوائے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام پیغمبروں سے افضل ہیں
 
تو چاہیے کے جناب امیر حضرت علی عليه السلام بھی تمام صحابہ اور سارے نبیوں سے افضل ہوں
 
زیادہ تر علمائے شیعہ کا یہ اعتقاد ہے کہ جناب امیر حضرت علی عليه السلام اور تمام آئمہ عليه السلام تمام انبیاء سے افضل ہیں

کتاب حیات القلوب - العلامة المجلسي - ج ٢ - الصفحة ٧٨٧،٧٨٦





٤٠

مجھ کو خبر دیجیے کہ آپ افضل ہیں یا آدم عليه السلام؟ حضرت علی عليه السلام نے فرمایا انسان کے لیے خود اپنی تعریف کرنا اچھا نہیں ہے لیکن میں آدم عليه السلام سے افضل ہوں
عرض کیا آپ افضل ہیں یا نوح
عليه السلام؟ فرمایا میں نوح عليه السلام سے افضل ہوں
عرض کیا آپ افضل ہیں یا ابراہیم
عليه السلام؟ فرمایا میں ابراہیم عليه السلام سے افضل ہوں
عرض کیا آپ افضل ہیں یا موسی
عليه السلام؟ فرمایا میں موسی عليه السلام سے افضل ہوں
عرض کیا آپ افضل ہیں یا عیسی
عليه السلام؟ فرمایا میں عیسی عليه السلام سے افضل ہوں

کتاب خورشید خاور - سید محمد شیرازی - ج ١ - الصفحة ٢٩٥،٢٩٤،٢٩٣





٤١

یہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ آئمہ ھدی عليه السلام انبیاء سے کہیں افضل و اشرف ہیں




٤٢

وان من ضروریات مذھبنا ان لا ئمتنا مقام لا یبلغه ملك مقرب ولا نبی مرسل 

کتاب الحكومة الاسلامية - الامام الخميني - الصفحة ٥٢

ترجمہ
ہمارے ضروریات مذھب میں یہ بات داخل ہے کہ کوئی بھی آئمہ کے مقام معنویت تک نہیں پہنچ سکتا چاہے وہ ملک مقرب یا نبی مرسل ہو وہ بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتا




Shia Zaakir (Kaafir) Allah Ki Toheen Kerte Hue Kehta Hai Ke Allah Ne Imam Ali (Radi ALLAHu Ta'ala Anhu) Se Farmaya Men Har Raat Tere Qadmun Ka Boose Lun Ga.. ASTAGHFIRULLAH


Quran Ki Ghustakhi Kerte hue Shia Aalim ka apna Moaqif Bayan Kerna


Shion Ka Aqeeda Ke Hazrat Musa A.S Allah Ke Noor Se Nahi Balke Maula Ali (Radi ALLAHu Ta'ala Anhu) Ki Roshni Ke Ek Hisay Ko Dekh Ker Behosh Ho Gae The (ASTAGHFIRULLAH)


Shia Ki Allah Ki Shan Men Toheen


Shia Zaakir Allama Jafar Hussain (Kaafir) Ki Nabion or Khane Kaba ki Shan Men Badtareen Ghustakhi (ASTAGHFIRULLAH)