ومن كلام له عليه السلام وقد سمع قوما من أصحابه يسبون أهل الشام أيام حربهم بصفين إني أكره لكم أن تكونوا سبابين، ولكنكم لو وصفتم أعمالهم وذكرتم حالهم كان أصوب في القول وأبلغ في العذر، وقلتم مكان سبكم إياهم. اللهم احقن دماءنا ودماءهم، وأصلح ذات بيننا وبينهم، واهدهم من ضلالتهم حتى يعرف الحق من جهله ويرعوي عن الغي والعدوان من لهج به
کتاب نهج البلاغة - خطب الإمام علي (ع) - خطبہ ٢٠٦ - الصفحة ٣٢٣
ترجمہ
جب آپ (رضی اللہ تعالی عنہ) نے صفین کے موقع پر کچھ لوگوں کو سنا کہ وہ اہل شام پر سب و شتم کر رہے ہیں تو آپ (رضی اللہ تعالی عنہ) نے فرمایا میں تمہارے لیے اس چیز کو ناپسند کرتا ہوں کہ تم گالیاں دینے لگو بہترین بات یہ ہے کہ تم ان کے اعمال اور حالات کا تذکرہ کرو تاکہ بات بھی صحیح رہے اور حجت بھی تمام ہو جائے اور پھر گالیاں دینے کے بجائے یہ دعا کرو کہ خدایا ہم سب کے خونوں کو محفوظ کردے اور ہمارے معاملات کی اصلاح کر دے اور انہیں گمراہی سے ہدایت کے راستے پر لگا دے تاکہ ناواقف لوگ حق سے باخبر ہو جائیں اور حرف باطل کہنے والے اپنی گمراہی اور سرکشی سے باز آجائیں۔
قالوا: وبلغ عليا أن حجر بن عدي وعمرو بن الحمق يظهران شتم معاوية، ولعن أهل الشام، فأرسل إليهما أن كفا عما يبلغني عنكما. فأتياه، فقالا:
(يا أمير المؤمنين، ألسنا على الحق، وهم على الباطل؟)، قال: (بلى، ورب الكعبة المسدنة)، قالوا: (فلم تمنعنا من شتمهم ولعنهم؟)، قال:
(كرهت لكم أن تكونوا شتامين لعانين، ولكن قولوا: (اللهم أحقن دماءنا ودماءهم، وأصلح
کتاب الأخبار الطوال - الدينوري - الصفحة ١٦٧
ترجمہ
امام علی (رضی اللہ تعالی عنہ) کو جنگ صفین میں خبر ہوئی کہ حجر بن عدی اور عمرو بن حق دونوں معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) کو برا بھلا کہتے ہیں اور شامیوں پر لعنت کرتے ہیں تو آپ نے ان کو کہلا بھیجا کہ جو کچھ تمہارے بارے میں مجھے خبر ملی ہے اس سے باز رہو دونوں حاضر خدمت ہوئے اور کہنے لگے اے امیر المومنین (رضی اللہ تعالی عنہ) ہم حق پر نہیں؟ اور وہ باطل پر نہیں؟ حضرت (رضی اللہ تعالی عنہ) نے فرمایا رب کعبہ کی قسم ایسا ہی ہے تو انہوں نے کہا پھر آپ ہمیں گالی گلوچ اور لعن طعن سے کیوں روکتے ہیں؟ فرمایا میں اسے اچھا نہیں سمجھتا کہ تم دونوں گالی دینے والے اور لعنت کرنے والے ہو جاؤ لیکن اگر کچھ کہنا چاہتے ہو تو یوں کہو اے الله ہم میں صلح پیدا فرما