Difa e Ahlesunnat

Difa e Ahlesunnat

Hadees Hauz Per Rafizion Ko Jawab



رافضیوں کا اعتراض

اصحاب رسول ص قیامت میں حوض کوثر سے دور کئے جائیں گے 

ابووائل نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے کہ نبی کریم ص نے فرمایا میں حوض کوثر پر تمہارا پیش خیمہ ہوں، میرے پاس تم میں سے کچھ لوگ لائے جائیں گے ، یہاں تک کہ جب میں انہیں پانی پلانے کےلئے جھکوں گا تو انہیں گھسیٹ کر مجھ سے دور کردیا جائے گا، پس میں عرض کروں گا اے رب! میرے اصحاب (ساتھی) ، فرمایا جائے گا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا نیا راستہ ایجاد کیا۔

نتیجہ: اس طرح کی روایتیں دوسری جلد میں بھی موجود ہیں اور اس کتاب الفتن میں حدیث نمبر ۱۹۳۱۔۱۹۳۳ میں بھی یہی موجود ہے ، میں نہیں سمجھتا کہ تمام اصحاب کو عقیدت کا مرکز بنانے والے اتنے بھولے ہیں کہ ان حدیثوں کو پڑھنے کے بعد بھی نہ سمجھ پائیں کہ حقیقت کیا ہے، مگر عداوت اہل بیت ع میں یہ جو نہ کرلیں وہ کم ہے، یہ عداوت علی ع کے سوا کچھ نہیں ہے۔ معتقدمین بخاری ، اس روایت کو پڑھنے کے بعد اپنے اس باطل عقیدے کو چھوڑ دیں جس میں ان کا ماننا ہے کہ رسول ص کے سبھی اصحاب قابل احترام ہیں، ان میں سے کسی کی بھی پیروی کرنے سے نجات مل جائے گی۔ اس طریقہ کا عقیدہ رکھنے والوں سے میں یہ کہتا ہوں کہ صحیح بخاری کی اس روایت کے آئینہ میں (جو اوپر پیش کی گئی) خود اصحاب کو تو نجات مل نہیں پارہی ہے تو وہ دوسروں کو کیا خاک نجات دلائیں گے۔ اور ہمارا اس بارے میں یہ عقیدہ ہے کہ ایسے اصحاب کی پیروی کرنے سے ایک چیز بہت آسانی سے مل سکتی ہے اور وہ ہے جہنم (بقول عین البنارسی)

      وہ جو مومن تھا اسے تو تم نے کافر کہہ دیا
      دفن اس کو کردیا جس کو جلانا   چائیے تھا




الجوب

یہ وہ سب سے پہلا اور سب سے بڑا اعتراض ہے جو اہل تشیع اپنے مذہب کے قیام کے دن سے کرتے آ رہے ہیں۔ اور اس کے تفصیلی جواب بھی اہل سنت کے مختلف علماء و زعماء اپنی اپنی کتب میں دے چکے ہیں جو آپ کے بھی علم میں یقیناً ہوں گے۔

: آپ کے سوال کا جواب خود اسی حدیثِ بخاری میں موجود ہے

صحابی کی تعریف پر اہل سنت کا جو اجماع ہے وہ یہاں بیان ہوا ہے۔
جب اللہ تعالیٰ خود فرما رہا ہے کہ انہوں نے انہوں نے اسلام سے منہ پھیر لیا اور مرتد ہو گئے

تو یہ صحابی کہاں ہوئے ؟؟

صحابی کی تعریف میں یہ بات شامل ہے کہ ایسا شخص "صحابی" متصور نہیں ہوگا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے بعد مرتد ہو گیا ہو۔

:بحوالہ
لإصابة في تمييز الصحابة : أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي ، ج:1 ، ص:7-8

اگر ہمارے کوئی بھولے بھائی یہ کہیں کہ بخاری کی روایت میں " اصحابي اصحابي" کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ کر "میرے صحابہ میرے صحابہ" کہیں گے ، اس طرح ان منافقین کے "صحابی" ہونے کی گواہی دیں گے تو اس کا جواب قرآنی آیات المنافقون:1 اور التوبہ:101 ہے

ان دو آیات میں منافقین کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام منافقین کو نہیں جانتے۔ اور روزِ حشر تو خود حوض کوثر کے قریب اللہ تعالیٰ فرما دے گا کہ یہ متذکرہ منافقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مرتد ہو گئے تھے۔
اسی لئے بخاری ہی کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے متعلق اللہ کا کلام جاننے کے بعد ان منافقین سے فرمائیں گے

سحقاً سحقاً (تمہاری ہلاکت ہو)

صحیح بخاری ، کتاب الفتن

پس ثابت ہوا کہ بخاری کی اس روایت میں "اصحابي" سے مراد اصطلاحی صحابی نہیں بلکہ عرفاً صحابی مراد ہے۔ جیسا کہ بخاری ہی کی ایک روایت میں رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے "اپنے ساتھی" کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا جلیبیب رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا
هذا مني وأنا منه[ یہ مجھ سے ہے اور مَیں اس سے ہوں )۔
 
صحیح مسلم ، فضائل صحابہ

جبکہ یہی الفاظ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے بھی بیان فرمائے ہیں
أنت مني وأنا منك (تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں)۔
 
صحيح بخاري ، فضائل صحابہ

کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرت جلیبیب رضی اللہ عنہ فضائل و محاسن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے برابر ہیں؟

ظاہر ہے کہ صرف ان الفاظ کی بنا پر ایسا نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ بالکل اسی طرح "اصحابي اصحابي" کے الفاظ سے یہ نتیجہ بھی اخذ نہیں کیا جانا چاہئے کہ متذکرہ منافقین صفات و فضائل میں حقیقی صحابہ کے برابر تھے

ہم کسی بھی مسلمان کو ظاہری طور پر پرکھ کر ہی مسلمان کہتے ہیں۔ کسی کے دل کا حال سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا۔

اسلام کو ظاہری طور پر قبول کرنے (کلمۂ طیبہ پڑھ لینے والے) کو ہی مسلمان کہتے ہیں۔ اس بات کی دلیل یہ آیت ہے:

قَالَتِ الأَعْرَابُ آمَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ
دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں، آپ فرما دیجئے: تم ایمان نہیں لائے، ہاں یہ کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں.

( الحُجُرات:49 - آيت:14 )

اور حافظ ابن کثیر بھی اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ
اللہ اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں کہئے کہ "تم یوں نہ کہو کہ ہم ایمان لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم مسلمان ہوئے۔۔۔" ۔۔۔ ایمان اسلام سے مخصوص چیز ہے۔ حدیث جبریل بھی اسی پر دلالت کرتی ہے جبکہ انہوں نے اسلام کے بارے میں سوال کیا پھر ایمان کے بارے میں ۔۔۔۔

ویسے بھی آپ "بظاہر مسلمان" جیسے لفظ کے استعمال سے قبول کر چکے ہیں کہ ایک کلمہ گو اگر دل میں نفاق رکھتا بھی ہے تو وہ بظاہر "مسلمان" ہی کہلائے گا۔ حالانکہ آپ پہلے کہہ چکے تھے کہ منافقین دل سے اسلام لائے ہی کب تھے وہ تو شروع سے ہی مرتد تھے۔ جبکہ بات دل سے اسلام لانے کی شروع نہیں ہوئی تھی بلکہ یوں شروع ہوئی تھی کہ بخاری کی حدیث میں جن منافقین کا بیان ہو رہا ہے ، آیا وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اسلام لانے والے منافقین تھے یا صحابی تھے؟
جبکہ ہم صحابی کی اہل سنت والجماعت والی تعریف سے ثابت کر چکے ہیں کہ حدیث میں بیان کردہ ان منافقین کا شمار اصطلاحی صحابی میں نہیں ہوتا۔

درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسا اوقات کلمہ "اصحابه" سے وہ تمام لوگ مراد لیے ہیں جو قبول اسلام کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی یعنی امتی بنے۔ ہماری اس توجیہ کی 2 مضبوط دلیلیں ہیں

١

بخاری کی ایک حدیث میں رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول کی گردن مار دینے کی اجازت جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ

دعه لا يتحدث الناس ان محمدا يقتل اصحابه

کہیں یوں نہ کہا جانے لگے کہ محمد اپنے صحابه کو قتل کرتا ہے۔

بتائیے کہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول کو کیا آج تک کسی مسلمان نے "صحابی" کا درجہ دیا ہے؟

٢

دوسری دلیل أمتي أمتي کے الفاظ والی حدیثِ بخاری ہے۔ منافقین ہر دور میں رہے ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔ اس کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے "أمتي أمتي" کے الفاظ کے ساتھ انہیں اپنی امت میں شمار کیا ہے۔

ان روایات کو ہم اہل سنت والجماعت جھوٹ قطعاً نہیں کہتے کیونکہ صحیحین کی ان روایات پر اجماع امت ہے۔ لہذا ہمارے علماء و ائمہ ومحدثین نے یہی تطبیق دی ہے کہ متذکرہ منافقین عرفاً نبی کے ساتھی تھے [یعنی کہ بالکل ویسے ہی جیسے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول کو نبی نے اپنے "أصحابي" میں شمار کیا]، اصطلاحی و شرعی معنوں میں وہ "صحابی" نہیں تھے ، کیونکہ صحابی کی اجماعی تعریف میں یہ بات شامل ہے کہ وفات "ایمان" پر ہوئی ہو
اور جن منافقین کو اللہ تعالیٰ خود کہہ چکا ہے کہ وہ "مرتد" ہو چکے ، وہ بھلا کس طرح "صحابی" کی تعریف میں شمار ہو سکتے ہیں؟؟

اور اخری بات یہ ہے کہ وہ لوگ جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد نئی باتیں اختیار کیں ان میں مندرجہ ذیل لوگ شامل ہیں
پہلے وہ جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جھوٹے نبی ہونے کا دعوی کیا جس میں سر فہرست مسیلمہ کذاب کا نام آتا ہے
دوسرے وہ لوگ جنہوں نے زکات دینے سے انکار کیا
تیسرے وہ لوگ جو دیکھا دیکھی میں کہ قبیلے کا سردار مسلمان ہوگیا تو وہ بھی مسلمان ہو گئے
ان تین قسم کے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور قرب حاصل نہ ہوا تھا اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد یہ مرتد ہوگئے ان لوگوں سے وہ لوگ ہوگز مراد نہیں جو سالا سال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں کو حبِّ صحابہ سے بھر دے اور ہمیں اتنی توفیق عطا فرمائے کہ ناموسِ صحابہ کی خاطر قصرِ صحابیت پر کئے جانے والے ہر حملے کا موثر دفاع کر سکیں ، آمین