مرسل حدیث
لغوی اعتبار سے مرسل "ارسال" کا اسم مفعول ہے۔ اس کا مطلب ہے ڈھیلی ڈھالی چیز۔ مرسل وہ حدیث ہوتی ہے جس کی اسناد ڈھیلی ڈھالی ہوں یعنی اس میں جانے پہچانے راویوں ہی پر انحصار نہ کیا گیا ہو۔ اصطلاحی مفہوم میں یہ اس حدیث کو کہتے ہیں جس میں تابعی کے بعد والے راوی کو حذف کر دیا گیا ہو فقہ اور اصول فقہ کے ماہرین کے نزدیک مرسل حدیث کی تعریف میں کچھ فرق ہے۔ ان کے نزدیک مرسل کا معنی زیادہ وسیع ہے اور وہ ہر منقطع حدیث (یعنی جس میں کوئی ایک راوی بھی غائب ہو خواہ وہ صحابی ہو یا بعد کا کوئی راوی) کو مرسل ہی میں شمار کرتے ہیں خواہ اس انقطاع کا سبب کچھ بھی ہو۔ خطیب بغدادی کا نقطہ نظر بھی یہی ہے
مرسل حدیث بنیادی طور پر تو مسترد ہی کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں صحیح حدیث کی شرائط میں سے اتصال سند کی شرط موجود نہیں ہے۔ جو راوی حذف کیا گیا ہے، ہمیں اس کے حالات کا علم نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ وہ صحابی نہ ہو اور ضعیف ہو
حدیث کے ماہرین کا مرسل حدیث اور اس سے نتائج اخذ کرنے کے بارے میں اختلاف ہے۔ یہ وہ منقطع حدیث ہے جس کی سند کا صرف آخری حصہ حذف کیا گیا ہے اصولیین کی تصریح کے مطابق حدیث مرسل کی دوقسمیں ہیں
مرسل حدیث بنیادی طور پر تو مسترد ہی کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں صحیح حدیث کی شرائط میں سے اتصال سند کی شرط موجود نہیں ہے۔ جو راوی حذف کیا گیا ہے، ہمیں اس کے حالات کا علم نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ وہ صحابی نہ ہو اور ضعیف ہو
حدیث کے ماہرین کا مرسل حدیث اور اس سے نتائج اخذ کرنے کے بارے میں اختلاف ہے۔ یہ وہ منقطع حدیث ہے جس کی سند کا صرف آخری حصہ حذف کیا گیا ہے اصولیین کی تصریح کے مطابق حدیث مرسل کی دوقسمیں ہیں
١۔ مراسیلِ صحابہ
٢۔ مراسیلِ غیر صحابہ
مراسیلِ صحابہ
یعنی صحابی کا اپنے ساتھی صحابی سے روایت نقل کرنا اور بغیراُن کے نام کی صراحت کیے کہنا قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
مراسیل صحابہ جمہور آئمہ کے نزدیک مقبول ہیں، علامہ نووی لکھتے ہیں کہ جمہور علماء مراسیلِ صحابہ کے قبول کرنے پر متفق ہیں؛ کیونکہ صحابہ کرام کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عادل قرار دیا ہے اور ان کی اقتداء کی ترغیب دی ہے۔
نووی مع مسلم :۱/۳۰
علامہ ابوحسین نے یہ تصریح کی ہے کہ امام شافعی مراسیلِ صحابہ کو خاص طور پر لائق استدلال شمار کرتے تھے۔
المعتمد : ۱/۲۳۸
امام اعظم ابو حنیفہ، امام مالک، امام احمد بن حنبل اور امام شافعی کے نزدیک بھی مراسیلِ صحابہ مقبول ہیں۔
فتح القدیر : ۲۲/۲۲۳
مراسیلِ غیرصحابہ
صحابی کے علاوہ کسی اور کی جانب سے ارسال ہو تواس کے معتبر ہونے یا نہ ہونے میں علماء کا اختلاف پایا جاتا ہے، ذیل میں اختصار کے ساتھ اسے ذکر کیا جاتا ہے
امام نووی نے یہ لکھا ہے کہ جمہور محدثین اور امام شافعی کے نزدیک مرسل غیرصحابی حدیث ضعیف کے حکم میں ہے۔
تدریب الراوی : ۱/۱۹۸
یہ بات توطے ہے کہ صحابہ عادل ہیں اور دینی معاملہ میں جس قدر انہیں احتیاط تھا وہ بعد کے ادوار میں نہ رہا؛ اسی لیے بعد والوں میں دینی لحاظ سے مختلف خرابیاں پائی جانے لگیں اور ان خرابیوں کے لحاظ سے محدثین کوحدیث کی صحت وضعف کے متعلق زمرہ بندی کی ضرورت پیش آئی، بسا اوقات متصل السند حدیث میں بھی غیرثقہ راوی آجاتا ہے اور اس کی وجہ سے حدیث درجہ صحت سے نکل جاتی ہے اور ضعیف احادیث کے زمرہ میں داخل ہوجاتی ہے، جب سند میں مذکور راویوں کی وجہ سے بھی ساری احادیث قبول واعتبار کا درجہ حاصل نہیں کرپاتی توجس سند میں راوی حذف کردیا گیا ہو وہ حدیث کیسے لائق احتجاج بن سکتی ہے؛ لہٰذا مرسل غیرصحابی معتبر اور لائقِ استدلال نہیں ہے۔
التدریب : ۱/۱۹۸
امام مالک، امام ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل کا مشہور قول یہ ہے کہ مرسل غیرصحابی بھی اگر وہ ثقہ ہو توقابلِ قبول ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ثقہ راوی کا کسی راوی کے ذکر کرنے سے خاموشی اختیار کرنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس راوی کو ثقہ جانتا ہے؛ گویا اس کا سکوت کرنا اس کی عدالت کی خبر دینا ہے؛ اسی لیے علامہ آمدی کہتے ہیں کہ جب عادل ثقہ کہے:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کذا، تو اس کے اس جملہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسے جب تک اس قول کے حضور کی طرف سے ہونے کا یقین نہ ہوا ہوتا تو ایسے جزم ویقین کے ساتھ وہ نقل نہ کرتے۔
الاحکام : ۲/۱۲۵
شیخ ابوزہرہ فرماتے ہیں کہ امام مالک اور امام ابو حنیفہ نے جومرسل غیرصحابی کو قبول کیا ہے اس کی وجہ روایت میں تساہل برتنا نہیں ہے؛ کیونکہ انہوں نے ہرشحص کے ارسال کو جائز قرار نہیں دیا ہے؛ بلکہ وہ صرف ایسے ثقات کے ارسال کو قبول فرماتے ہیں ،جن کے بارے میں اُن کو صدق سے متصف ہونے کا علم ہوتا ہے اور اس کے علاوہ کبھی ان کے قبول کرنے کا سبب اس کی شہرت ہوتی ہے، ارسال تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں زیادہ تھا؛ کیونکہ وہ زمانہ خیرالقرون کا تھا اور مجموعی طور پر آپ کا ارشاد ہے "مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ" (مشکوٰۃ شریف:۳۲) سامنے رہا کرتا تھا، اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط بات کے منسوب کرنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی؛ لیکن جب دین کی گرفت ڈھیلی ہونے لگی اور آپ کی طرف غلط باتوں کو منسوب کیا جانے لگا تو علماء اس کے سند کی طرف متوجہ ہوئے تاکہ راوی کو پہچانا جاسکے اور اس کی حالت کے مطابق حدیث کی صحت وسقم کا اندازہ کیا جائے؛ اسی لیے ابن سیرین فرماتے ہیں کہ ہم حدیث کی سند فتنہ کی وجہ سے بیان کرنے لگے۔
اصول مذہب الامام احمد بن حنبل :۳۰۴
مرسل کا حکم
صحابہ کی مراسیل کے بارے میں ہم جان چکے ہیں کہ وہ مسند کے حکم میں ہیں ، لہٰذا حجت ہیں اور جس شخص نے اس مسئلہ میں سختی کی ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے رہی بات تابعین اور ان کے بعد والوں کی مراسیل کی تو وہ روایات امام مالک ، امام احمد اور ایک روایت کے مطابق امام ابوحنیفہ کے نزدیک حجت ہیں۔ امام شافعی اور جمہور محدثین کے نزدیک سوائے سعید بن مسیب کی مراسیل کے باقی مراسیل حجت نہیں ہیں
حاصل کلام یہ ہوا کہ علماء کی اکثریت کے نقطہ نظر کے مطابق صحابی کی مرسل حدیث صحیح ہو گی اور اس سے نتائج اخذ کرنا درست ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا امکان بہت کم ہے کہ صحابی نے کسی تابعی سے حدیث روایت کی ہو۔ اگر انہوں نے ایسا کیا ہو تو وہ اسے بیان کر دیتے ہیں۔ جب صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات منسوب کریں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے دوسرے صحابی سے ہی اس بات کو سنا ہو گا مرسل حدیث غیر صحابہ کو مسترد کیا جائے گا۔ محدثین، فقہاء اور اصول فقہ کے ماہرین کی اکثریت کا یہی نقطہ نظر ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ہمیں حذف کردہ راوی کے نام کا علم نہیں۔ عین ممکن ہے کہ وہ صحابی نہ ہو بلکہ کوئی تابعی ہو اور حدیث روایت کرنے میں ضعیف ہو