Difa e Ahlesunnat

Difa e Ahlesunnat

Yazeed or Qustuntunya Ka Hamla




آجکل کچھ بدتمیز لوگ یزید پلید کو حدیث "أول جيش من أمتي يغزون مدينة قيصر مغفور لهم" کا مصداق ٹھہراتے ہیں اور اسے خواہ مخواہ جنت میں گھسیڑنے کے لیے بڑے پاپڑ بیلتے ہیں ۔ مذکورہ حدیث بوجوہ یزید کی مغفرت اور صداقت و حقانیت پر دلالت نہیں کرتی ۔

١۔ اس روایت میں کہیں بھی یزید کا نام نہیں ہے اور نہ ہی قسطنطنیہ کا کہیں ذِکر ہے نہ اشارةً، نہ کنایةً اور نہ ہی صراحتاً ۔
٢۔ اس روایت میں مدینہ قیصر پر حملہ کا ذِکر ہے اور مدینہ قیصر کا کسی لغت کی کتاب میں معنی "قسطنطنیہ" نہیں بلکہ قیصر ایک حدود وعلاقہ کا نام ہے جس کے کئی شہر ہیں اور مضمونِ حدیث کے مطابق اس حملہ کا تعلق کسی بھی شہر کے ساتھ ہو سکتا ہے ۔
چنانچہ قیصر کے شہر پر سب سے پہلا حملہ خود سید عالم ﷺ کے ظاہری زمانہ مبارک میں 8ھ میں ہوا ۔ دوسری بار قیصر کے دارالسلطنت شہر حمص پر 16ھ خلافتِ فاروقی میں ہوا جبکہ یزید ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا ۔
علامہ جلال الدین سیوطی کی تحقیق کے مطابق یزید 25ھ یا 26ھ میں پیدا ہوا ۔
٣۔ اگر بالفرض مدینہ قیصر سے مراد "قسطنطنیہ" ہی لیا جائے تو بھی یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ قسطنطنیہ پر پہلا حملہ 36ھ عہدِ عثمانی میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ہوا تھا ۔ دوسرا حملہ 43ھ، تیسرا حملہ 44ھ، چوتھا 46ھ میں عبد الرحمن بن خالد کی قیادت میں ہوا جبکہ یزید جس لشکر میں شامل ہوا وہ 49ھ یا 50ھ یا اس کے بعد حملہ آور ہونے والا لشکر تھا ۔ملاحظہ کیجیے
سنة ثنتين وأربعين  

فيها غزا المسلمون اللان والروم ۔
  البداية والنهاية 24:8 مكتبة المعارف بيروت
سنة أربع وأربعين 

فيها غزا عبد الرحمن بن خالد الوليد بلاد الروم ۔
 البداية والنهاية 27:8 مكتبة المعارف بيروت
سنة ست وأربعين  

فيها شتى المسلمون ببلاد الروم مع أميرهم عبد الرحمن بن خالد بن الوليد ۔
  البداية والنهاية 30:8 مكتبة المعارف بيروت
یزید کا نمبر یہاں آتا ہے
سنة تسع وأربعين  

فيها غزا يزيد بن معاوية بلاد الروم حتى بلغ قسطنطينية ومعه جماعات من سادات الصحابة ۔
 البداية والنهاية 32:8 مكتبة المعارف بيروت
٤۔ حدیث مذکور میں لفظ "مغفور لھم" کے معنی گزشتہ گناہ معاف ہونے کے ہیں اور اس کی بے شمار مثالیں احادیث میں موجود ہیں، چند مثالیں ملاحظہ کیجیے
عن عمر بن الخطاب قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ذاكر الله في رمضان مغفور له ۔
 مجمع الزوائد ومنبع الفوائد 143:3 باب في شهور البركة وفضل شهر رمضان، دار الريان للتراث/‏دار الكتاب العربي ۔ القاهرة , بيروت
حدثنا عبيد الله حدثنا أبي حدثنا قره عن أبي الزبير عن جابر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال من يصعد الثنية ثنية المرار فإنه يحط عنه ما حط عن بني إسرائيل فكان أول من صعدها خيلنا خيل بني الخزرج قال فتتابع الناس فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم كلكم مغفور له ۔
 مسند أبي يعلى 393:3 دار المأمون للتراث دمشق

عن عبد الله بن عمر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا لقيت الحاج فسلم عليه وصافحه ومره ان يستغفر لك قبل ان يدخل بيته فإنه مغفور له ۔
  مشكاة المصابيح 778:2 المكتب الإسلامي بيروت
اب اس بات کا جائزہ بھی لیتے ہیں کہ "قسطنطنیہ" جسے یزیدی ٹولہ "مدینہ قیصر" قرار دے رہا ہے اس پر سب سے پہلا حملہ کب اور کس کی قیادت میں ہوا ۔ ملاحظہ کیجیے مؤرخ ابی یعقوب لکھتے ہیں
وأغزى عثمان جيشا أميرهم معاوية على الصائفة سنة فبلغوا إلى مضيق القسطنطينية وفتحوا فتوحا كثيرة ۔
 تاريخ اليعقوبي 169:2 دار صادر بيروت
مؤرخ ابن اثیر لکھتے ہیں
ثم دخلت سنة اثنتين وثلاثين  

قيل في هذه السنة غزا معاوية بن أبي سفيان مضيق القسطنطينية ومعه زوجته عاتكة بنت قرظة ۔
 الكامل في التاريخ 25:3 دار الكتب العلمية بيروت
یزیدی ٹولے کے ممدوح ابنِ کثیر لکھتے ہیں
ثم دخلت سنة ثنتين وثلاثين  

وفيها غزا معاوية بلاد الروم حتى بلغ المضيق مضيق القسطنطينية ۔
 البداية والنهاية 159:7 مكتبة المعارف بيروت
ابنِ خلدون لکھتے ہیں
ودخل المسلمون سنة إثنتين وأربعين إلى بلاد الروم فهزموهم وقتلوا جماعة من البطارقة وأثخنوا فيها ثم دخل بسر بن أرطأة أرضهم سنة ثلاث وأربعين ومشى بها وبلغ القسطنطينية ۔
 مقدمة ابن خلدون 11:3 دار القلم بيروت
پتا چلا کہ "قسطنطنیہ" جسے "مدینہ قیصر" قرار دے کر یزیدی ٹولہ "مغفور لھم" کی بشارت کو یزید پلید پر فٹ کر کے اتنی اچھل کود کرتا ہے اس پر "اول جیش" 32ھ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں حملہ کر چکا تھا جبکہ یزید کی عمر اس وقت چوسنی چوسنے والی تھی ۔
قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے جس لشکر میں یزید شامل تھا اس لشکر میں شامل صحابہ کرام یزید کے ماتحت نہیں بلکہ حضرت سفیان بن عوف کے ماتحت تھے، ملاحظہ کیجیے
والأصح أن يزيد بن معاوية غزا القسنطينية في سنة اثنتين وخمسين ، وقيل : سير معاوية جيشا كثيفا مع سفيان بن عوف إلى القسطنطينية فأوغلوا في بلاد الروم ، وكان في ذلك الجيش ابن عباس وابن عمر وابن الزبير وأبو أيوب الأنصاري وتوفي أبو أيوب في مدة الحصار……… الأظهر أن هؤلاء السادات من الصحابة كانوا مع سفيان هذا ولم يكونوا مع يزيد بن معاوية ، لأنه لم يكن أهلا أن يكون هؤلاء السادات في خدمته ۔
 عمدة القاري شرح صحيح البخاري 198:14 دار إحياء التراث العربي بيروت
یہاں شارح بخاری علامہ بدر الدین عینی حنفی کی ایک عبارت فائدہ سے خالی نہیں ہو گی جس میں آپ نے یزید کو اس بشارت سے نکال پھینکا ہے، ملاحظہ کیجیے
قلت : أي منقبة كانت ليزيد وحاله مشهور ؟ فإن قلت : قال ، صلى الله عليه وسلم ، في حق هذا الجيش : مغفور لهم . قلت : لا يلزم ، من دخوله في ذلك العموم أن لا يخرج بدليل خاص ، إذ لا يختلف أهل العلم أن قوله ، صلى الله عليه وسلم : مغفور لهم ، مشروط بأن يكونوا من أهل المغفرة حتى لو ارتد واحد ممن غزاها بعد ذلك لم يدخل في ذلك العموم ۔
ترجمہ
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس میں یزید کے بارے میں منقبت ہے حالانکہ اس کا حال مشہور ہے؟جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے اس لشکر کے حق میں فرمایا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس بشارت میں کسی کے عمومی طور پر داخل ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ کسی دلیل ِ خاص سے اس بشارت سے خارج نہیں ہو سکتا کیونکہ اہلِ علم اس بات پر متفق ہیں کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان "مغفور لھم" مشروط ہے صرف اس شخص کے لیے جو مغفرت کا مستحق بھی ہو اور بالفرض کوئی شخص اس غزوہ میں شرکت کے بعد مرتد ہو جائے تو بالاتفاق وہ اس لشکر میں شامل ہونے کے باوجود اس بشارت میں داخل نہ ہو گا ۔
لو جی یزیدیوں کے روحانی پیشوا "یزید صاحب" اس بشارت سے کک آؤٹ ہو گئے کیونکہ امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کر کے انھوں نے جو کلنک کا ٹیکہ اپنے ماتھے پر سجا لیا ہے اب وہ قیامت تک ان پر پھٹکار بن کر مسلط رہے گا ۔
اس لیے حدیث "اول جیش من أمتی الخ" کو بنیاد بنا کر یزید کو جنتی ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانا اور کربلا میں جو کچھ ہوا اسے پسِ پشت ڈال دینا سراسر حماقت اور علمی خیانت کا بدترین مظاہرہ ہے ۔