
حضرات صحابہ کرام پر تبراء بازی کرنا اور ان پر الزامات لگانا کوئی ایسا عمل نہیں ہے کہ جو ایک دو سال سے شروع ہوا ہو بلکہ یہ سلسلہ صدیوں پرانا ہے ۔ انہی میں سے ایک الزام حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر لگایا جاتا ہے کہ انھوں نے 40ھ سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو منبر پر بیٹھ کر خطبے میں گالی گلوچ کا سلسلہ شروع کیا جو صدی کے آخر تک جاری رہا ۔ پہلے تو یہ الزام روافض کا تھا پھر مودودی نامی ایک ملحد نے کتاب "خلافت و ملوکیت" میں اس الزام کا اعادہ کیا اور اب ایک اور ٹولہ اس سلسلے میں سرگرم ہے جو بظاہر سنی ہے لیکن اندرونِ خانہ اس کے تمام عقائد روافض والے ہیں ۔ ان میں سے ایک شخص محمود شاہ مؤدث ہزاروی تھا جو مر گیا تو بیٹے نے اس کی جگہ سنبھال لی اور اس کے علاوہ اسی کا تربیت یافتہ ایک نام نہاد پیر نام نہاد مفکر اسلام (دراصل مفکر اظلام) عبد الکادر شاہ ٹینچ بھاٹوی ہے جو نعرہ حق چار یار کا منکر اور اس کے مقابلے میں نعرہ حق سب یار کا داعی ہے لیکن اندرونِ خانہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور آپ کے والد کا سخت گستاخ ہے ۔ اس کا ثبوت یو ٹیوب پر موجود اس کا ایک کلپ ہے جس میں اس نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر منبر پر بیٹھ کر خطبے میں گالی گلوچ کا الزام لگایا ہے ۔ قارئین کی سہولت کے لیے اس کا لنک حاضر ہے، خود سن سکتے ہیں ۔
مزید سہولت کے لیے اس کلپ میں کی جانے والی گفتگو کو تحریری شکل میں پیش کر رہا ہوں پھر اس کا ترتیب کے ساتھ جواب عرض کیا جائے گا ۔ ملاحظہ کیجیے
مختصر بات یہ ہے کہ ایک مسئلہ آپ کا رہ گیا ہو گا کہ جنابِ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جو سلسلہ ہے تبراء بازی کا اس کا نام کوئی شرائط صلح طے کرنا نہیں ہے، نہ کوئی اصلاح کرنا یا اپنا موقف بیان کرنا ہے بلکہ سن 40ھ میں آپ نے تبراء شروع کیا جو لگاتار صدی کے خاتمے تک جاری رہا اور حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو آکر بند کیا یہ خطبہ جو ان اللہ یأمر بالعدل والاحسان ایتای ذی القربیٰ یہ عمر بن عبد العزیز نے اس کی جگہ اس کو ریپلیسمنٹ کیا ہے ۔ لیکن ہم چونکہ اہلِ سنت والجماعت میں سے ہیں جناب امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو برا بھلا نہیں کہنا چاہتے سرکار کو اس بات کا اختیار ہے کہ ایک برے سے برے آدمی کے بارے میں بھی کہیں زبان بند رکھو اس کو خدا بخش دے گا ہم سرکار کی زبان پر کامل اعتماد رکھتے ہیں ۔ اور یہ نہیں کہہ سکتے کہ تبراء انھوں نے کیا ہی نہیں یہ بات ہر کتاب نے لکھا ہے یہ جتنے لوگوں نے گھڑا ہوا ہے کہ یہ بات ہوئی ہی نہیں مسلم شریف کے اندر حدیث موجود ہے پوچھتے ہیں اے زید بن ارقم تم حضرت علی مرتضیٰ پر سب کیوں نہیں کرتے ہو؟ سب کے معنےٰ ہیں گالیاں دینا ۔ سباب المسلم فسوق وقتاله كفر ۔ مسلم کی حدیث ہے مومن کو گالی دینا گناہ کبیرہ ہے اور اس کو قتل کر ڈالنا کفر ہے اعتقادی طور پر صحیح سمجھ کے ۔ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا لا تسبوا أصحابی ۔ جب عام صحابہ کو گالی دینا حرام ہے تو نبی پاک کی اولادِ خاص کو، نبی پاک کے بھائی کو ۔
اس گفتگو میں چند باتیں قابل غور ہیں، ملاحظہ کیجیے
١۔ عبد الکادر شاہ ٹینچ بھاٹوی کا حضرت امیر معاویہ پر الزام ہے کہ انھوں نے 40ھ سے حضرت علی پر تبراء بازی شروع کی جس کا سلسلہ صدی کے آخر تک جاری ہے اور حضرت عمر بن عبد العزیز نے اسے ختم کیا ۔
٢۔ عبد الکادر شاہ کی بات "ہم امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو برا بھلا نہیں کہنا چاہتے سرکار کو اس بات کا اختیار ہے کہ ایک برے سے برے آدمی کے بارے میں بھی کہیں زبان بند رکھو اس کو خدا بخش دے گا ہم سرکار کی زبان پر کامل اعتماد رکھتے ہیں" سے یہ بات عیاں ہے کہ چونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ میرے صحابہ کے متعلق اپنی زبانوں کو بند رکھو اس لیے وہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا بھلا نہیں کہنا چاہتے اگر انھیں اس کام پر مجبور کیا جائے تو ہو سکتا ہے کہ برا بھلا کہنا بھی شروع کر دیں ۔
٣۔ عبد الکادر شاہ کا کہنا ہے کہ جو لوگ اس بات کے مدعی ہیں کہ تبراء بازی والا کام ہوا ہی نہیں ہے، وہ سب غلط ہیں ہر کتاب میں لکھا ہے کہ یہ کام ہوا ہے اور اس کی دلیل صحیح مسلم کی ایک روایت ہے جس میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن ارقم سے پوچھا کہ اے زید بن ارقم تم حضرت علی پر سب کیوں نہیں کرتے؟
٤۔ چونکہ مسلم شریف میں لفظ "سب" آیا ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا اے زید بن ارقم تم حضرت علی پر "سب" کیوں نہیں کرتے؟ اور بقول عبد الکادر شاہ لفظ "سب" کا معنےٰ "گالیاں دینا" ہے ۔
٥۔ پھر خود عبد الکادر شاہ نے صحیح مسلم سے ایک حدیث پیش کی جس کا ترجمہ یہ کیا کہ "مومن کو گالی دینا گناہ کبیرہ ہے اور اس کو قتل کر ڈالنا کفر ہے ۔"
٦۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لا تسبوا أصحابی ۔ جب عام صحابہ کو گالی دینا حرام ہے تو نبی پاک کی اولادِ خاص کو، نبی پاک کے بھائی کو۔۔۔۔۔(یہاں بھی عبد الکادر ٹینچ بھاٹوی نے لفظ "تسبوا" کا ترجمہ گالی ہی کیا ہے ۔
اب آئیے اور ان تمام باتوں کا ترتیب وار جواب ملاحظہ کیجیے ۔
١۔ حضرت امیر معاویہ نے 40ھ سے حضرت علی پر تبراء بازی شروع کی جس کا
سلسلہ صدی کے آخر تک جاری ہے اور حضرت عمر بن عبد العزیز نے اسے ختم کیا ۔
ذرا تصور کیجیے مدینہ شریف میں مسجد نبوی میں منبر بچھا ہوا ہے اور اس پر
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے ہیں اور دورانِ خطبہ حضرت علی
کرم اللہ وجہہ کو گندی گالیاں دے رہے ہیں ۔ وہاں حسنین کریمین بھی موجود
ہیں اور صحابہ کرام کا جم غفیر بھی موجود ہے ۔ اتنا بڑا فتنہ برپا ہے کہ
رسول اللہ ﷺ کے پہلو مبارک میں، منبرِ رسول پر بیٹھ کر رسول اللہ ﷺ کے
پیاروں کو گندی گالیاں دی جا رہی ہیں لیکن نہ تو حسنین کریمین اس فتنے کی
سرکوبی کرتے ہیں اور نہ ہی کسی صحابی میں اتنی اخلاقی جرأت ہے کہ وہ آگے
بڑھ کر حضرت ا میر معاویہ رضی اللہ عنہ کو روکیں اور انھیں اس کام سے باز
رکھیں ۔ اگر کسی کے پاس اس بات کا ثبوت ہے تو وہ پیش کر دے ۔ عام انسان یہ
سوچتا ہو گا کہ یہ صرف حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر الزام ہے لیکن
حقیقت یہ ہے کہ الزام لگانے والوں نے اس ایک الزام کے ذریعے حسنین کریمین
اور پوری جماعتِ صحابہ کی غیرتِ دینی و ایمانی پر دھبہ لگا دیا ہے ۔انا للہ
وانا الیہ راجعون ۔
آئیے اصح الکتب بعد کتاب اللہ سے چند روایات پیش کر کے بات آگے بڑھاتا
ہوں ۔ ان روایات کے پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ صحابہ کرام حق گو جماعت تھی
اور حق بیان کرتے وقت وہ کسی بڑے سے بڑے جابر کی پرواہ بھی نہیں کیا کرتے
تھے ۔
عن أبي سعيد الخدري قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرج يوم الفطر
والأضحى إلى المصلى فأول شيء يبدأ به الصلاة ثم ينصرف فيقوم مقابل الناس
والناس جلوس على صفوفهم فيعظهم ويوصيهم ويأمرهم فإن كان يريد أن يقطع بعثا
قطعه أو يأمر بشيء أمر به ثم ينصرف قال أبو سعيد فلم يزل الناس على ذلك حتى
خرجت مع مروان وهو أمير المدينة في أضحى أو فطر فلما أتينا المصلى إذا
منبر بناه كثير بن الصلت فإذا مروان يريد أن يرتقيه قبل أن يصلي فجبذت
بثوبه فجبذني فارتفع فخطب قبل الصلاة فقلت له غيرتم والله فقال أبا سعيد قد
ذهب ما تعلم فقلت ما أعلم والله خير مما لا أعلم فقال إن الناس لم يكونوا
يجلسون لنا بعد الصلاة فجعلتها قبل الصلاة ۔
صحيح البخاري 203:1 باب
الخروج إلى المصلى بغير منبر، مکتبه رحمانيه لاهور
ترجمہ
ابوسعید خدری روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺعید الفطر اور
بقر عید کے دن عیدگاہ کو جاتے، اور اس دن سب سے پہلے جو کام کرتے وہ یہ کہ
نماز پڑھتے، پھر نماز سے فارغ ہو کر لوگوں کے سامنے کھڑے ہوتے اس حال میں
کہ لوگ اپنی صفوں پر بیٹھے ہوتے آپ ﷺانہیں نصیحت کرتے تھے اور وصیت کرتے
تھے اور انہیں حکم دیتے تھے اور اگر کوئی لشکر بھیجنے کا ارادہ کرتے تو اس
کو جدا کرتے، اور جس چیز کا حکم دینا ہوتا، دیتے، پھر واپس ہو جاتے،
ابوسعید نے کہا کہ لوگ ہمیشہ اسی طرح کرتے رہے، یہاں تک کہ میں مروان کے
ساتھ عیدالضحیٰ یا عیدالفطر میں نکلا جو مدینہ کا گورنر تھا۔ جب ہم لوگ
عیدگاہ پہنچے تو دیکھا کہ وہاں منبر موجود تھا، جو کثیر بن صلت نے بنایا
تھا، مروان نے نماز پڑھنے سے پہلے اس منبر پر چڑھنے کا ارادہ کیا تو میں نے
اس کا کپڑا پکڑ کر کھینچا، اس نے بھی مجھے کھینچا، اور منبر پر چڑھ گیا،
اور نماز سے پہلے خطبہ پڑھا، میں نے اس سے کہا کہ بخدا! تم نے سنت کو بدل
ڈالا، مروان نے کہا کہ اے ابوسعید ! وہ چیز گزر چکی جو تم جانتے ہو، میں نے
کہا بخدا! میں جو چیز جانتا ہوں وہ اس سے بہتر ہے جو میں نہیں جانتا ہوں۔
مروان نے کہا لوگ نماز کے بعد میری بات سننے کیلئے نہیں بیٹھتے، اس لئے میں
نے خطبہ نماز سے پہلے کیا۔
عن سعيد المقبري عن أبيه قال كنا في جنازة فأخذ أبو هريرة رضي الله عنه
بيد مروان فجلسا قبل أن توضع فجاء أبو سعيد رضي الله عنه فأخذ بيد مروان
فقال قم فوالله لقد علم هذا أن النبي صلى الله عليه وسلم نهانا عن ذلك فقال
أبو هريرة صدق ۔
صحيح البخاري 255:1 باب من تبع جنازة فلا يقعد حتى توضع
عن مناكب الرجال فإن قعد أمر بالقيام، مکتبه رحمانيه لاهور
ترجمہ
سعید مقبری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ہم ایک جنازے میں شریک تھے تو
ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ نے مروان کا ہاتھ پکڑا اور دونوں جنازہ رکھے جانے سے
پہلے بیٹھ گئے تو ابوسعید آئے اور مروان کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ کھڑا ہوجا،
بخدا تمہیں معلوم ہے کہ نبی ﷺنے ہمیں منع کیا ہے حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ
نے کہا انہوں نے سچ فرمایا۔
عن يوسف بن ماهك قال كان مروان على الحجاز استعمله معاوية فخطب فجعل يذكر
يزيد بن معاوية لكي يبايع له بعد أبيه فقال له عبد الرحمن بن أبي بكر شيئا
فقال خذوه فدخل بيت عائشة فلم يقدروا فقال مروان إن هذا الذي أنزل الله فيه
{ والذي قال لوالديه أف لكما أتعدانني } فقالت عائشة من وراء الحجاب ما
أنزل الله فينا شيئا من القرآن إلا أن الله أنزل عذري ۔
صحيح البخاري
215:2 باب تفسير سورة حم الأحقاف، مکتبه رحمانيه لاهور
ترجمہ
یوسف بن ماہک سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ مروان حجاز کا حاکم تھا
جس کو حضرت معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے مقرر کیا تھا اس نے خطبہ پڑھا تو
یزید بن معاویہ کا ذکر کرنے لگا تاکہ (معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ) کے بعد اس
کی بیعت کی جائے تو عبدالرحمن بن ابی بکر نے اس سے کچھ کہا مروان نے کہا ان
کو پکڑ و وہ حضرت عائشہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کے گھر میں گھس گئے اور یہ لوگ
انہیں نہ پکڑ سکے مروان نے کہا کہ یہی وہ شخص ہے جس کے بارے میں ﷲ تعالیٰ
نے آیت (والذي قال لوالديه أف لكما أتعدانني) نازل فرمائی حضرت عائشہ رضی ﷲ
تعالیٰ عنہا نے پردے کے پیچھے سے جواب دیا کہ ﷲ تعالیٰ نے ہمارے متعلق
کوئی آیت نازل نہیں فرمائی بجز اس کے جو ﷲ تعالیٰ نے میری برات میں نازل
فرمائی۔
جو صحابہ کرام اتنی بات بھی برداشت نہیں کرتے تھے کہ مروان منبر پر بیٹھ
کر کوئی ایسا کام کرے جو رسول اللہ ﷺ کی سنت کے خلاف ہو وہ صحابہ کرام یہ
کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ منبر پر بیٹھ کر رسول اللہ ﷺ کے اہلِ بیت کو
گالیاں دی جائیں ۔ لہٰذا منبر پر بیٹھ کر گالی گلوچ والا الزام کسی دشمنِ
خدا نے گھڑا ہے جو اندھے مؤرخین نقل کرتے چلے گےی لیکن حقیقت سے اس کا کوئی
تعلق نہیں اگر اس کا حقیقت سے کوئی تعلق ہوتا تو صحابہ کرام اور اہلِ بیت
اس پر ضرور احتجاج کرتے ۔
٢۔ عبد الکادر شاہ کے اس جملے کہ " ہم امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کو برا بھلا نہیں کہنا چاہتے سرکار کو اس بات کا اختیار ہے کہ ایک برے سے
برے آدمی کے بارے میں بھی کہیں زبان بند رکھو اس کو خدا بخش دے گا" سے
بغضِ حضرت امیر معاویہ عیاں ہے اور اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس کے
نزدیک حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اس قابل ہیں کہ انھیں برا بھلا کہا
جائے لیکن رسول اللہ ﷺ کے فرمان کی وجہ سے برا بھلا نہیں کہتے ۔
٣۔ عبد الکادر شاہ کا کہنا کہ "مسلم شریف کے اندر حدیث موجود ہے پوچھتے
ہیں اے زید بن ارقم تم حضرت علی مرتضیٰ پر سب کیوں نہیں کرتے ہو؟" اس کی
جہالت کی دلیل ہے ۔ حضرت امیر معاویہ نے یہ سوال حضرت زید بن ارقم سے نہیں
بلکہ حضرت سعد بن ابی وقاص سے پوچھا تھا ۔ ملاحظہ کیجیے
عن عامر بن سعد بن أبي وقاص عن أبيه قال أمر معاوية بن أبي سفيان سعدا
فقال ما منعك ان تسب أبا التراب فقال أما ما ذكرت ثلاثا قالهن له رسول الله
صلى الله عليه وسلم فلن اسبه لان تكون لي واحدة منهن أحب الي من حمر النعم
۔
صحيح مسلم 1871:4 باب من فضائل علي بن أبي طالب رضي الله عنه، رقم 2404
دار إحياء التراث العربي بيروت
لیکن اس سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا حضرت سعد بن ابی وقاص کو حضرت علی پر تبراء بازی کا حکم دینا قطعا ثابت نہیں ہوتا ۔
٤۔ عبد الکادر شاہ کو اصرار ہے کہ لفظ "سب" کے معنےٰ ہیں "گالیاں دینا"
لیکن یہ بھی اس کی جہالت ہے یا پھر تحکم و سینہ زوری ہے کہ دھکے سے "سب" کا
معنےٰ "گالی" ثابت کرنا چاہتا ہے ۔ لفظ "سب" کے معنےٰ ہر گز گالی گلوچ یا
تبراء بازی نہیں ہیں ۔ اگر پھر بھی تسلی نہیں ہوتی تو آئیے مسلم شریف سے
ہی آ ئینہ دکھاتا ہوں، یہاں لفظ "فسبھما" موجود ہے ۔
عن عبد الله قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم سباب المسلم فسوق
وقتاله كفر ۔
صحيح مسلم 2247:5 باب ينهى من السباب واللعن، رقم 5697 دار
إحياء التراث العربي بيروت
معاذ بن جبل أخبره قال خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام غزوة
تبوك فكان يجمع الصلاة فصلى الظهر والعصر جميعا والمغرب والعشاء جميعا حتى
إذا كان يوما أخر الصلاة ثم خرج فصلى الظهر والعصر جميعا ثم دخل ثم خرج بعد
ذلك فصلى المغرب والعشاء جميعا ثم قال إنكم ستأتون غدا إن شاء الله عين
تبوك وإنكم لن تأتوها حتى يضحي النهار فمن جاءها منكم فلا يمس من مائها
شيئا حتى آتي فجئناها وقد سبقنا إليها رجلان والعين مثل الشراك تبض بشيء من
ماء قال فسألهما رسول الله صلى الله عليه وسلم هل مسستما من مائها شيئا
قالا نعم فسبهما النبي صلى الله عليه وسلم ۔
صحيح مسلم 1784:4 باب في
معجزات النبي صلى الله عليه وسلم، رقم 706 دار إحياء التراث العربي بيروت
عبد الکادر شاہ ٹینچ بھاٹوی کی پیش کردہ صحیح مسلم کی روایت میں تو "ما
منعک أن تسب أبا لتراب" جس کا ترجمہ عبد الکادر شاہ نے خود کیا ہے:تم حضرت
علی مرتضیٰ پر سب کیوں نہیں کرتے ہو؟ اس میں کہیں بھی گالی دینے کا حکم
نہیں ہے لیکن ہماری پیش کردہ روایت میں تو "فسبھما النبی صلی اللہ علیہ
وسلم" کے الفاظ موجود ہیں جس کا مطلب (ہمارے نزدیک) ہے:نبی کریم ﷺ نے انھیں
ڈانٹا ۔ لیکن عبد الکادر شاہ جیسے کوئی مفکر اظلام کے نزدیک تو یہاں اس کا
مطلب گالی ہونا چاہیے ۔ اب اگر کسی لچے لفنگے ٹینچ بھاٹوی میں غیرت نام کی
چیز ہے تو یہاں "فسبھما النبی ﷺ" کا ترجمہ "گالیاں دینا" کر کے دکھا دے ۔
ورنہ چلو بھر پانی میں ڈوب مریں ۔
٥۔ عبد الکادر شاہ نے حدیث "سباب المسلم فسوق ۔ مومن کو گالی دینا گناہ
کبیرہ ہے" پیش کر کے میرا کام آسان کر دیا ہے ۔ اب اس کا جواب قرآن مجید
سے پیش کرتا ہوں ۔ صحابہ کرام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ولكن الله حبب إليكم الإيمان وزينه في قلوبكم وكره إليكم الكفر والفسوق
والعصيان أولئك هم الراشدون ۔
(پارہ 26 سورہ الحجرات، آیت 7)
اگر کسی میں جرأت ہے تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس آیت کے عموم سے نکال کر دکھائے ۔
جناب ٹینچ بھاٹوی اور ان کے چمچے حضرات!اللہ تعالیٰ نے کفر، فسق اور
نافرمانی جیسے اعمال کے بارے میں صحابہ کرام کے دلوں میں ناگواری ڈال دی ہے
اور "اولئک ہم الراشدون" فرما کر ان کے ہدایت یافتہ ہونے پر مہر ثبت فرما
دی ہے اور آپ جیسے حضرات انہی اعمال کو ان نفوسِ قدسیہ کی طرف منسوب کرنے
کی ڈیوٹی سر انجام دے کر خود اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے مرتکب ہو رہے ہو ۔
کچھ تو خدا کا خوف کرو ۔
٦۔ اس ساری تفصیل کے بعد "لا تسبوا أصحابی" والی حدیث خود بخود ٹینچ
بھاٹوی ٹولے پر فٹ ہو جاتی ہے جو ایک صحابی پر گالیاں دینے اور تبراء بازی
کا الزام لگا کر اصحابِ نبی پر "سب" کا مرتکب ہو رہا ہے ۔ فاعتبروا یا أولی
الأبصار