مولود کعبہ کون؟
تحقیق غلام حسین نقشبندی
بسم اللہ الرحمان الرحیم
ہم اہلسنت اللہ والوں کی ہر خوبی و شان کو دل و جان سے تسلیم کرتے ہیں پھر چاہے اس خوبی و شان کا تعلق فضائل سے ہو یا خصائص سےلیکن تسلیم کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کسی ہستی کے متعلق شہرت پا جانے والی غلط فہمی کو اس کی فضیلت یا خصوصیت مان لیا جائے اور اس کے انکار پر لعن طعن کیا جائے (العیاذباللہ)
جہاں مولا علیؓ کی طرف اور بہت سی باتیں غلط منسوب ہیں وہاں پر یہ بات بھی بڑے زور و شور سے کی جاتی ہے کہ مولائے کائنات کی ولادت کعبہ میں ہوئی ہے اور نہ صرف یہ کہا جاتا ہے بلکہ اس کو بنیاد بنا کر مولا علیؓ کی شان میں غلو کی حد کردی جاتی ہے اور کعبہ میں ولادت کو مولائے کائنات کی خصوصیت بھی قرار دیا جاتا ہے حالانکہ حقیقت اس سے کوسوں دور ہے,
جہاں مولا علیؓ کی طرف اور بہت سی باتیں غلط منسوب ہیں وہاں پر یہ بات بھی بڑے زور و شور سے کی جاتی ہے کہ مولائے کائنات کی ولادت کعبہ میں ہوئی ہے اور نہ صرف یہ کہا جاتا ہے بلکہ اس کو بنیاد بنا کر مولا علیؓ کی شان میں غلو کی حد کردی جاتی ہے اور کعبہ میں ولادت کو مولائے کائنات کی خصوصیت بھی قرار دیا جاتا ہے حالانکہ حقیقت اس سے کوسوں دور ہے,
بہر کیف
مولا علی رضیﷲعنہ کے مولود کعبہ ہونے پر جو پہلی دلیل پیش کی جاتی ہے وہ حاکم نیشاپوری کا قول ہے
حاکم کہتے ہیں
فقد تواتر الاخبار ان فاطمتہ بنت اسد ولدت امیر المؤمنین علی بن ابی طالب کرم اللہ وجھہہ فی جوف الکعبہ
المستدرک علی الصحیحین - الجزء الثالث کتاب معرفتہ الصحابہ - الرقم٦٠٤٤ صفحہ٥٥٠ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
ترجمہ
پس تحقیق اخبار متواترہ سے ثابت ہے کہ فاطمہ بنت اسد (رضیﷲعنہا) نے امیر المومنین علی بن ابی طالب کرمﷲ وجھہہ کو کعبہ میں جنم دیا
اس قول کو بطور دلیل پیش کرنا کم فہمی ہے کیونکہ حاکم یہاں تو تواتر کا دعویٰ کر رہے ہیں اور فضائل علیؓ کے باب میں ایک بھی صحیح بلکہ صحیح تو دور ایک ضعیف روایت بھی پیش کرنے کی جرأت نہ کرسکے جس میں حاکم کے دعوے کی دلیل ہو تو فقط حاکم کے کہنے پر متواتر کون مانے؟
جب کہ حاکم کی تاریخ وفات ٤٠٥ ھجری ہے اب ایک واقعہ جو کہ حاکم کی پیدائش سے بھی کئی سو سال پہلے کا ہے اس واقعہ کو حاکم کے کہنے پر تسلیم کرنا اور نہ صرف تسلیم بلکہ متواتر کہنا نا انصافی ہوگا
دوسری بات یہ کہ اس کے تواتر کے دعوے میں حاکم منفرد ہیں ان کے سوا محدثین میں سے کسی نے اس واقعہ کے تواتر کا دعویٰ نہیں کیا
تیسری اور اہم بات یہ کہ اہل علم جانتے ہیں کہ حاکم نیم شیعہ تھے اور ان کا تواتر کا دعویٰ اسی سلسلے کی ایک کڑی بھی ہوسکتا ہے
مولا علیؓ کو مولود کعبہ ماننے والوں کی دوسری دلیل اور اس پر نقد
مولائے کائنات کو مولود کعبہ ثابت کرنے کیلئے "نزہتہ المجالس" سے ایک واقعہ پیش کیا جاتا ہے ہم نے نزہتہ المجالس کے عربی اردو دونوں صفحات کا اسکین پیش کردیا ہے تاکہ معاملہ مشکوک نہ ٹھہرے اور قاری کو آسانی رہے
نزہتہ المجالس کے مصنف امام عبد الرحمان بن عبدالسلام صفوری شافعی علیہ الرحمتہ ہیں جو کہ اپنے وقت کے مشہور خطباء میں سے ہیں اور آپ کی تاریخ وفات ٩٠٠ ھجری ہے
آپ نے مولائے کائنات کے مولود کعبہ والا واقعہ "الفصول المہمہ" نامی کتاب سے بغیر سند کے نقل کیا لہذا امام صفوری کا اس واقعہ کو بغیر سند کے نقل کرنا دلیل نہیں بن سکتا
دوسری بات یہ کہ اس بے سند واقعہ میں کعبہ میں پیدا ہونے کو مولا علیؓ کی خصوصیت بتایا جا رہا ہے اور صاف الفاظ ہیں کہ یہ فضیلت کسی اور کو نہیں ملی حالانکہ صحیح روایات سے ثابت ہے کہ صحابی حکیم بن حزام رضیﷲعنہ کعبہ میں پیدا ہوئے
تو صحیح روایات کی موجودگی میں ایسے بے سند واقعات سے کعبہ میں ولادت کو مولا علیؓ کے ساتھ خاص کرنا ایسے ہی ہے جیسے دن کے وقت آنکھیں بند کرکے سورج کی نفی کرنا اور رات ہونے پر ضد کرنا (فافھم)
مولا علیؓ کو مولود کعبہ ماننے والوں کی تیسری دلیل اور اس پر نقد
مولائے کائنات کرم اللہ وجھہ الکریم کو مولود کعبہ ثابت کرنے کیلئے شیعہ اور نیم شیعہ سنی ایک "الفصول المہمہ" نامی غیر معروف کتاب کا سہارا بھی لیتے ہیں باوجود اس کے کہ قائلین امام حاکم کے کہنے پر مولائے کائنات کی کعبہ میں ولادت کو اخبار متواترہ سے ثابت مانتے ہیں,
مگر افسوس اس بات پر کہ جب دلائل کی باری آتی ہے تو "الفصول المہمہ" جیسی غیر معروف کتاب اٹھا کر سامنے کردی جاتی ہے
اس کتاب کے مصنف "علی بن محمد بن احمد المالکی المکی" ہیں جو "ابن الصباغ" کے نام سے مشہور ہیں اور موصوف کی تاریخ وفات "٨٥٥ھ" ہے.
دعوٰی تواتر کا اور دلائل ؟
حاکم کا قول
نزہتہ المجالس کا قصہ
اور الفصول المہمہ جیسی کتاب جس کو اکثر و بیشتر علماء شاید جانتے ہی نہ ہوں بہر کیف
الفصول المہمہ کے مطلوبہ صفحے کا اسکین ہدیۂ قارئین کیا جاتا ہے تاکہ معاملہ عین الیقین کی حد تک پہنچ جائے
الفصول المہمہ میں بھی نرا دعوٰی ہی دعوٰی ہے دلیل کا نام و نشان نہیں اور اگر کوئی روایت پیش کی گئی ہے تو اس کی سند مفقود ہے اور بغیر سند کے کوئی روایت حجت نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی قدر و اہمیت ہے,
الفصول المہمہ کے مصنف ٨٥٥ھ میں فوت ہوئے جبکہ مولا علیؓ کی ولادت کا واقعہ ہجرت سے کئی برس پہلے کا ہے لہذا ایسا واقعہ جو صاحب فصول المہمہ کی پیدائش سے بھی کئی سو سال پہلے کا ہے فقط ان کے کہنے پر کیسے مان لیا حائے؟
مولا علیؓ کو مولود کعبہ ماننے والوں کی چوتھی دلیل اور اس پر نقد
مولائے کائناتؓ کو مولود کعبہ ثابت کرنے کیلئے شیعہ اور نیم شیعہ سنی حضرات " ڈوبتے کو تنکے کا سہارا" پر عمل کرتے ہوئے "سبط ابن جوزی" کی کتاب "تذکرہ الخواص" پیش کرکے بگلیں بجاتے ہیں,
حالانکہ یہاں بھی سند کے اعتبار سے وہی معاملہ ہے جو "المستدرک" "الفصول" اور "نزھتہ المجالس" میں رہا ہے کہ ایک تو دعویٰ بلا دلیل اور اگر کوئی روایت نقل کر ہی دی تو شاید اس کی سند شیعوں کے بارہویں امام غار وغیرہ میں چھپا کر بیٹھے ہیں,
"تذکرہ الخواص" میں بھی فقط دعویٰ ہی دعویٰ ہے نہ کوئی دلیل اور نہ ہی کوئی سند
تو ہم بغیر سند کے کسی واقعہ کا اعتبار کیونکر کریں؟
اور واقعہ بھی ایسا جس سے مذہب شیعہ کو تقویت ملتی ہو (فافھم) دوسری اور اہم بات کہ سبط ابن جوزی اور "امام ابن جوزیؒ " دو الگ شخصیات ہیں لہذا دھوکہ کھانے کی ضرورت نہیں اور یہ بھی واضح رہے کہ "سبط ابن جوزی" تقیہ باز رافضی تھا تقریباً ٦٥٤ ھجری میں وفات پائی
اب ایک واقعہ جو سبط ابن جوزی سے کئی سو سال پہلے کا ہے صرف اس کے بیان کرنے سے کیوں تسلیم کیا جائے؟
اور بالخصوص اس وقت کہ جب سبط ابن جوزی کی اپنی پوزیشن یہ ہو کہ اس کے اپنے قلم سے رافضیت ٹپک رہی ہو تو اس وقت سبط ابن جوزی کی اطاعت میں مولائے کائناتؓ کو مولود کعبہ ماننا نری حماقت نہیں تو کیا ہے؟
مولا علیؓ کو مولود کعبہ ماننے والوں کی پانچویں دلیل کا ردّ
مولا علیؓ کو مولود کعبہ ماننے والے شیعہ اور نیم شیعہ سنی اپنے اس مفروضہ کی گرتی ہوئی دیوار کو بچانے کی خاطر "نور الابصار" نامی کتاب کو دین ایمان سمجھتے ہوئے پیش کرتے ہیں! اور حسب معمول یہاں بھی نرا دعویٰ ہی دعویٰ
لطیفہ یہ ہے کہ نور الابصار کے مصنف الشیخ شبلنجی مولا علیؓ کی ولادت کعبہ میں لکھ کر حوالہ "ابن الصباغ" کا دیتے ہیں اور یہ ابن الصباغ وہی ہے جو "الفصول المھمہ" نامی غیر معروف کتاب کا مصنف ہے جس کا رد ہم دلیل نمبر 3 میں پیش کر آئے ہیں
اور ظاہری بات ہے جب اصل کا رد ہو گیا تو فرع خودبخود ختم یعنی جب ابن الصباغ کا رد ہو گیا تو اب جو کوئی بھی ابن الصباغ کا حوالہ دے گا اس کا رد خودبخود ہو جائے گا
لہذا "نور الابصار" کا حوالہ پیش کرنا قائلین کو کسی طرح مفید نہیں کیونکہ یہاں بھی نہ تو کوئی دلیل ہے اور نہ ہی کوئی سند بلکہ جو واقعہ ولادت لکھا ہے وہ بھی ابن الصباغ کی الفصول سے لیا گیا ہے جب کہ الفصول میں بھی اس کی کوئی سند نہیں
لہذا ایسی موضوع (من گھڑت) روایات سے مولائے کائنات کو مولود کعبہ ثابت کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوا سفید ہے کی رٹ لگائے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنا جس سے کچھ حاصل نہیں!
اور صاحب نور الابصار الشیخ الشبلنجی ١٣ ھویں صدی ہجری کے علماء میں سے ہیں اور ایسا واقعہ جو ان کی پیدائش سے سینکڑوں سال پہلے کا ہے اس کے بارے ان کی ذاتی رائے یا دعویٰ کچھ حیثیت نہیں رکھتا
مولا علیؓ کو مولود کعبہ ماننے والوں کی چھٹی دلیل کا ردّ
مولائے کائنات کرم اللہ وجھہ الکریم کو مولود کعبہ ماننے والے لوگ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی مایۂ ناز تصنیف "ازالتہ الخفاء" کا حوالہ بھی پیش کرتے ہیں حالانکہ حاکم نیشاپوری کے رد کے بعد شاہ صاحب کا حوالہ پیش کرنا سراسر کج فہمی کی دلیل ہے کیونکہ شاہ صاحب اپنی تحقیق کی بناء پر ایسا نہیں فرما رہے بلکہ حاکم ہی کے قول کو نقل کر رہے ہیں حالانکہ ہم پہلی دلیل کے رد میں یہ واضح کر آئے ہیں کہ حاکم کا قول دراصل حاکم کا وہم ہے یا پھر نیم شیعہ ہونے کی ایک کڑی (فافھم)
اور ایسا دعویٰ جس کی دلیل ہے ہی نہیں اور دعویٰ بلا دلیل مردود ہوتا ہے لہذا ایسے مردود قول یا دعوے کو چاہے ایک ہزار بندہ نقل کرتا چلا آئے دلیل نہیں بن سکتا.
اسی لئے قائلین کو شاہ صاحب کا حوالہ کچھ فائدہ نہیں دے گا کیونکہ شاہ صاحب بھی حاکم ہی کا قول نقل کر رہے ہیں.