Difa e Ahlesunnat

Difa e Ahlesunnat

Hazrat Ali (Radi ALLAHu Ta'ala Anhu) Ki Bait e Hazrat Abu Bakar Siddique (Radi ALLAHu Ta'ala Anhu)





حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے بیعت رافضیوں کی کتب سے







اس حدیث کو علامہ مجلسی نے کالموثق کہا ہے

کتاب مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول - العلامة المجلسي - ج ٢٦ - الصفحة ٣٢٦



















اس حدیث کو علامہ مجلسی نے حسن موثق کہا ہے

کتاب مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول - العلامة المجلسي - ج ٢٦ - الصفحة ٢١٣








حضرت علی رضی اللہ تعالی عن اور باقی تمام بنی ہاشم نے مجبور ہو کر بظاہر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عن کی بیعت کرلی اور ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا پھر خالد بن سعید اور ان کے بھائیوں نے بھی ان کی تابعداری میں بیعت کرلی

کتاب مجالس المومنین - قاضی نور اللہ شوستری - الصفحہ ٩٧

























 




وقال علي والزبير: ما غضبنا إلا في المشورة، وإنا لنرى أبا بكر أحق الناس بها، إنه لصاحب الغار، وإنا لنعرف له سنة، ولقد أمره رسول الله ص بالصلاة بالناس وهو حي

کتاب شرح نهج البلاغة - ابن أبي الحديد - ج ٢ - الصفحة ٢٥٥

ترجمہ
علی رضی اللہ تعالی عنہ اور زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: ہماری ناراضگی اس لئے تھی کہ ہمیں (خلافت کے) مشورے میں موخر کیا گیا۔ اور بے شک ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سب لوگوں سے زیادہ اس کا حق رکھتے ہیں۔ وہ صاحب غار ہیں ، اور بے شک ہم ان کو عرصے سے جانتے ہیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات میں ان کو نماز کی امامت پر مامور فرما دیا تھا









حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا شیخین سے جہاد نہ کرنا اور بیعت کرنا


حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے خلفائے ثلاثہ کے خلاف جہاد کیوں نہ کیا اور بیعت کیوں کرلی؟ اس بات کے جواب میں رافضی چند من گھڑت بہانہ جات پیش کرتے ہیں ملاحظہ ہوں

بہانہ نمبر ١

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے مددگار نہ ملنے کی وجہ سے جہاد نہ کیا




بہانہ نمبر ٢

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے تحت لڑائی چھوڑ کر بیعت کا فیصلہ کیا 





تردید بہانہ اول و دوم

اب ان دونوں بہانوں کے مضمون میں غور فرمائیں ایک طرف خلافت کے حق کو حاصل کرنے کے لیے سیدہ بنت رسول اللہ اور حسنین کو مہاجرین و انصار کے گھروں پر پھرا کر انہیں اپنا ہم نوا بنانے کا خیال فرمایا اور جب ناامیدی ہوئی تو ان کی غداری اور بے وفائی سے مایوس ہو کر گھر بیٹھ گئے ورنہ ضرور جہاد کرتے اور اپنا حق کسی کو نہ دیتے دوسری طرف سرے سے ہی جھگڑا ختم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو منع کردیا تھا اور آپ کے ارشاد کے مطابق جہاد سے دستبرداری کر کے بیعت کرلی اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد تھا کہ لڑائی نہیں کرنی تو محاجرین و انصار کے پاس بنت رسول کو گھوڑے پر سوار کر کے کیوں لےگئے اور اگر انہیں معاون وہم نوا بنانے کے لیے تگ ودو کی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد کیوں پس پشت ڈالا ؟ گویا پہلا بہانہ اس بنیاد پر تھا کہ غمخوار نہ ملے ورنہ سب کچھ کر گذرتے اور دوسرا بہانہ یہ کہ حامی تو بہت تھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ہاتھ نہ اٹھایا ان دونوں بہانوں میں کتنی مخالفت ہے 



بہانہ نمبر ٣

لوگوں کے مرتد ہوجانے کے ڈر سے جہاد نہ کیا




تردید بہانہ سوم

یہاں آُپ نے لوگوں کے مرتد ہوجانے کے خطرہ سے اپنے لیے خلافت کی فضا ہموار نہ کی اور خلافت سے دستبرداری قبول کرلی ادھر خود ان کی کتب یہ ثابت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صرف تین یا چار اشخاص مسلمان رہ گئے باقی سب مرتد ہوگئے تو جس خطرہ کی پیش نظر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے دستبرداری کی وہ تو حقیقت بن گیا تو پھر اس خطرہ کا خطرہ کیسا؟







بہانہ نمبر ٤

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے جبراً بیعت لی گئی




تردید بہانہ چہارم

مذکورہ روایت میں اگر اس فرضی اور افسانوی واقع کو درست مان لیا جائے تو اس سے یہ امور ثابت ہوتے ہیں اول یہ کہ اتنے کمزور تھے کہ لوگوں نے ان کے گلے میں رسی ڈال کر باطل قبول کرنے پر امادہ کرلیا دوم یہ کہ آپ اتنے مظلوم تھے کہ عدی بن حاتم نے کہا کہ مجھے زندگی بھر اتنا کسی اور پر رحم نہیں آیا جتنا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ پر آیا جب ان کے گلے میں لوگرسی ڈال کر کھینچ رہے تھے 

شاہ مرداں شیر یزداں قوت پروردگار
لافتیٰ  الا  علی  لا  سیف الا  ذولفقار

حالانکہ یہ تو وہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں جن کے بارے میں انہی کی  کتابوں میں آیا ہے کہ


حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ جب بھی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھتے بےہوش ہو جاتے




اب ایسے شخص کے گلے میں رسی ڈال کر لوگ کھینچتے ہوئے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس لے جائیں اور وہ قتل کے خوف سے مجبوراً بیعت کرلیں یہ کیسے ممکن ہے؟ حق یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی شجاعت ضرب المثل ہے اور ایسے شجاع و بہادر کا مجبوراً بیعت کرلینا بہت بڑا دجل و فریب ہے 




اعتراض : حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے چھ ماہ بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی بیعت کی