حضور فیض ملت مفتی محمد فیض احمد اُویسی رضوی سے حدیث قرطاس پر سوال جواب
سوال
پیغمبر عليه السلام جناب علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت تحریر فرمانا چاہتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کاغذ، قلم ودوات طلب فرمائی تو انہوں نے نہ دی بلکہ یہ کہا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہذیان کہتا ہے اور ہمیں ﷲ تعالیٰ کی کتاب کافی ہے۔ یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑی غلطی کی۔
جواب
جھوٹوں پر خدا کی لعنت۔ آپ کی ابتداء ہی غلط بلکہ کتب اہل اسلام میں الٹا یہ موجود ہے کہ پیغمبر عليه السلام اپنے مرض الموت میں جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت تحریر فرماگئے تھے جیسا کہ مشکوٰۃ شریف صفحہ ٥٥٥ پر واضح الفاظ میں موجود ہے۔ نیز اس طعن کرنے سے اتنا پتہ چل گیا کہ خم غدیر کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ مقرر نہیں ہوئے تھے اور عید غدیر مناکر شیعہ لوگ خواہ مخواہ بدنام ہورہے ہیں۔ آپ کا یہ دعویٰ پیغمبر عليه السلام نے کاغذ، قلم، دوات حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے طلب فرمائی تو یہ بھی جھوٹ ہے بلکہ آپ نے جمیع حاضرین سے کہ جن میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور گھر کی عورتیں وغیرہ بھی شامل ہیں، کاغذ، قلم، دوات طلب فرمایا
فقال ائتونی بکتف اکتب لکم کتابا
بخاری شریف کتاب الجزیۃ، باب اخراج الیہود من جزیرۃ العرب جلد ١٠، ص ٤٢٦، رقم الحدیث ٢٩٣٢
یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کتب لاؤ تاکہ میں تمہیں ایک ایسی تحریر لکھ دوں کہ جس کے بعد تم راہ حق کو نہ گم کرو۔
غور فرمایئے حدیث میں ’’ائتونی‘‘ صیغہ جمع مذکر مخاطب بول کر پیغمبر عليه السلام جمیع حاضرین سے کتف طلب فرمارہے ہیں۔ فقط حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور ان سے طلب ہی کیوں فرماتے جبکہ وہ ان کا گھر ہی نہ تھا کہ جس میں قلم دوات طلب کی گئی بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا حجرہ تھا، جیسا کہ بخاری شریف جلد ١، صفحہ ٣٨٢ پر ہے اور پھر اگر قریب تھا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گھر لہذا اگر خاص طور پر طلب فرماتے تو ان سے کہ جن کا گھر بعید تھا۔ بہرحال نقل و عقل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پیغمبر عليه السلام نے قلم دوات طلب نہیں فرمائی۔ تمام شیعہ متفق ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گھر مدینہ شریف کے شہر کے آخری کونے پر تھا
٢۔ آپ اس کا کیا جواب دیں گے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تین دن زندہ (دنیوی زندگی) رہے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ باوجوہ قریب البیت ہونے کے بھی ان کی تعمیل حکم نہ کرسکے اور بقول شیعہ خلافت بھی انہیں کی تحریر ہوئی تھی اور ادھر حکم رسول بھی تھا لہذا اگر باقی سب صحابہ مخالف تھے تو ان پر لازم تھا کہ چھپے یا ظاہر ضرور لکھوا لیتے تاکہ یوم سقیفہ یہی تحریر پیش کرکے خلیفہ بلافصل بن جاتے مگر یہ سب کچھ نہیں ہوا تو معلوم ہوا کہ یا تو تحریر ہی سرے سے ضروری نہ تھی بلکہ ایک امتحانی پرچہ تھا کہ جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے سے اتفاق فرمایا ورنہ آپ پر کتمان حق اور وحی کا الزام عائد ہوگا حالانکہ جماعت انبیاء اس سے بالاتر ہے۔
٣۔ اگر یہ ضروری تحریر تھی یا وحی الٰہی تھی اور کاغذ دوات نہ لانے والا خواہ مخواہ ہی مجرم ہوتا تو اس جرم کے مرتکب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بجائے اہل بیت کو ہونا لازم آتا ہے۔ اس لئے کہ وہ ہر وقت گھر میں رہتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہ جن کا گھر باقی صحابہ کی نسبت قریب تھا اور اگر وہ مجرم نہیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی مجرم نہیں۔ لہذا شیعوں کا یہ کہنا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کاغذ اور دوات حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے طلب فرمائی، باطل ہوا۔
سوال
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے العیاذ باﷲ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہذیان کی نسبت کی؟
جواب
یہ بھی جھوٹ اور افتراء ہے
فقالو مالہ اہجر استفہموہ
بخاری شریف کتاب الجزیۃ، باب اخراج الیہود من جزیرۃ العرب جلد ١٠، ص ٤٢٦، رقم الحدیث ٢٩٣٢
یعنی حاضرین نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے ہجرت فرمانے لگے ہیں۔ آپ سے دریافت تو کرلو۔
اور عبارت میں قالوا بصیغہ جمع مذکر غائب موجود ہے لہذا پہلی جہالت تو شیعوں کی یہ ہوئی کہ صیغہ جمع سے ایک شخص واحد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مراد لے لیا۔ دوسری جہالت یہ کہ ہجر کا معنی برخلاف عربیت بلکہ برخلاف سباق و سیاق ہذیان لکھ مارا حالانکہ ہجر معنی ہذیان کیا جائے تو آگے استفہموہ نے بتادیا کہ ہجر کے معنی وہی دار دنیا سے جدا ہونے کا ہی ہے نہ کچھ اور۔
٢۔ اگر ہجر بمعنی ہذیان بھی تسلیم کرلیا جائے تو بھی مفید نہیں کیونکہ اہجر سین ہمزہ استفہام انکاری موجود ہے کہ جس سے نفی ہذیان مفہوم ہورہی ہے معنی یہ ہوگا کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوئی ہذیان فرما رہے ہیں۔ نہیں ہرگز نہیں بلکہ ہوش سے فرمارہے ہیں ذرا دریافت تو کرلو۔ بہرکیف حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو ویسے ہی اس مقولہ کے قائل نہ تھے۔ باقی رہے قائلین تو چونکہ ہجر بمعنی ہذیاب ثابت نہیں ہوا، اگر ہوا تو بوجہ ہمزہ استفہام منفی ہوگیا لہذا وہ بھی اس سے بری ہوگئے۔
سوال
اگر یہی بات ہے تو پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حسبنا کتاب ﷲ کیوں کہا؟
جواب
اول تو اکثر روایات میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ مقولہ ہی نہیں شمار ہوا۔
٢۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب یہ خیال فرمایا کہ ﷲ کا دین اور قرآن مکمل ہوچکا ہے کہ جس پر ’’الیوم اکملت لکم دینکم‘‘ شاہد ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم بطور وحی الٰہی اور وجوب نہیں بلکہ بطور مشورہ ہے تو آپ نے بطور مصلحت اور مشورہ عرض کردیا کہ یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم آپ تحریر قرطاس کی تکلیف نہ فرمائیں۔ کتاب ﷲ کو ہمارے لئے کافی سمجھیں جس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے موافقت ظاہر فرمائی اور تحریر قرطاس پر زور دینے والوں کو ڈانٹ دیا۔
دعونی فالذی انا فیہ خیر مما تدعونی الیہ
بخاری شریف کتاب الجہاد والسیر، باب ہل یستشفع الی اہل الذمۃ ومعاملتہم جلد ١٠، ص ٢٦٨، رقم الحدیث ٢٨٢٥
اور اگر قرآن کو کامل مکمل کتاب جاننا ہی جرم ہے تو ﷲ تعالیٰ کے ارشاد گرامی کا کیا مطلب ہوگیا ’’واعتصموا بحبل اﷲ جمیعا‘‘ نیز حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا نہج البلاغہ جلد ٣ ص ٥٧ پر ہے۔ وﷲ وﷲ فی القرآن نیز کتاب مذکور جلد ٢ صفحہ ٢٧ پر ہے فاوصیک بالاعتصام بحبلہ اور جلد ٢ صفحہ ٢٢ پر ہے ومن اتخذ قولہ دلیلا ہدیٰ دیکھئے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ہدایت کے لئے قرآن کو کافی قرار دیا لہذا ان کے قول سے اگر انکار بالسنۃ لازم نہیں آئے گا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں کیونکر مفہوم مخالف لیا جاسکے گا۔ اگر بربنائے نیستی وبربنائے مصلحت مشورہ دینا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ہے تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حسب روایت مذہب شیعہ یقینا منکر رسول ہیں۔ چنانچہ جنگ حدیبیہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اے علی! مٹایئے مگر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو صاف جواب دیا کہ میں اسے ہرگز نہیں مٹاؤں گا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ مبارک سے اسے مٹایا۔ اگر اس واقعہ میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نافرمان نہیں کہا جاسکتا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی نہ کہا جائے کیونکہ بربنائے مصلحت و حکمت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم نبوی کی خلاف ورزی کی ہے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی کہا جاسکتا ہے۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ نہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلاف ورزی کی ہے، نہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے، بلکہ وہی ہوا جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے۔ مزید تفصیل فقیر کی کتاب القسطاس فی حدیث القرطاس میں ہے۔