واقعہ قرطاس اور شیعہ روافض کا بطلان
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ مَعْمَرٍ و حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ لَمَّا حُضِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي الْبَيْتِ رِجَالٌ فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلُمَّ أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ فَقَالَ عُمَرُ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غَلَبَ عَلَيْهِ الْوَجَعُ وَعِنْدَکُمْ الْقُرْآنُ حَسْبُنَا کِتَابُ اللَّهِ فَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْبَيْتِ فَاخْتَصَمُوا مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ قَرِّبُوا يَکْتُبْ لَکُمْ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ مَا قَالَ عُمَرُ فَلَمَّا أَکْثَرُوا اللَّغْوَ وَالِاخْتِلَافَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُومُوا قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ فَکَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقُولُ إِنَّ الرَّزِيَّةَ کُلَّ الرَّزِيَّةِ مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ أَنْ يَکْتُبَ لَهُمْ ذَلِکَ الْکِتَابَ مِنْ اخْتِلَافِهِمْ وَلَغَطِهِمْ
ابراہیم بن موسی، ہشام، معمر، (دوسری سند) عبداللہ بن محمد، عبد الرزاق، معمر، زہری، عبیداللہ بن عبداللہ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کا وقت قریب آیا تو اس وقت گھر میں بہت سے لوگ تھے جن میں حضرت عمر بن خطاب بھی تھے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (کاغذ) لاؤ میں تمہارے لئے ایک تحریر لکھ دوں تاکہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو، حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ نبی کو درد کی تکلیف ہے اور تمہارے پاس قرآن ہے ہم لوگوں کے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے، اس وقت اھل بیت میں اختلاف ہوا اور جھگڑنے لگے بعض کہنے لگے کہ کوئی کاغذ لا کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیدو تاکہ تمہیں کوئی تحریر لکھ دیں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہو اور بعض وہی کہنے لگے جو حضرت عمر نے فرمایا تھا، جب زیادہ جھگڑا اور شور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ہونے لگا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہاں سے چلے جاؤ عبیداللہ، حضرت ابن عباس کا قول نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ سب سے بڑی مصیبت یہ ہوئی کہ لوگوں کا اختلاف اور شور وغل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی وصیت لکھنے کے درمیان حائل ہوگیا
الجواب
١۔ اس طعن کرنے سے اتنا پتہ چل گیا کہ خم غدیر کے موقع پر حضرت علی رضی اﷲ عنہ خلیفہ مقرر نہیں ہوئے تھے اور عید غدیر مناکر شیعہ لوگ خواہ مخواہ بدنام ہورہے ہیں۔ اور نہ ہی اس موقع پر نبی پاکﷺ کا کوئی ایسا ارادہ تھا
شیخ مفید جو شیعہ کا متقدمین میں سے ایک عالم ھے وہ لکھتا ھے
ثم أعرضب وجهه عن القوم فنهضوا، وبقي عنده العباس والفضل وعلي بن أبي طالب وأهل بيته خاصة.فقال له العباس: يا رسول الله، إن يكن هذا الأمرفينا مستقرا بعدك فبشرنا، وإن كنت تعلم أنا نغلب عليه فأوص بنا، فقال:(أنتم المستضعفونمن بعدي) وأصمت، فنهض القوم وهم يبكون قد أيسوا من النبي صلى الله عليه وآله
کتاب الارشاد لمفید ج ١ ص ١٨٣
اعلام الوریٰ مصنفہ ابی الفضلابی الحسن الطبرسی ص ١٤٢
تہذیب المتین فی تاریخ امیرالمومنین مطبوعہ یوسی دہلی جلد اول ص ٢٣٦
قلم دوات لانے کے متعلق جب صحابہ کرام میں اختلاف ہوگیا تو نبی پاکﷺ نے سب کو اٹھ جانے کا حکم دیا) جب سباٹھ کر چلے گئے وہاں باقی ماندہ اشخاص میں حضرت عباس، فضل بن عباس، علی بن ابی طالب اور صرف اہل بیت تھے۔ تو حضرت عباس نے عرض کی یارسول اﷲ! اگر امر خلافت ہم بنی ہاشم میں ہی مستقل طور پر رہے تو پھر اس کی بشارت دیجئے اور اگر آپ کے علم میں ہے کہ ہم مغلوب ہوجائیں گے تو ہمارے حق میں فیصلہ فرمادیجئے۔ اس پر آپﷺ نے ارشادفرمایا۔ میرے بعد تمہیں بے بس کردیا جائے گا۔ بس اسی قدر الفاظ فرما کر سکوت فرمالیا۔ اورحالت یہ تھی کہ جناب عباس، علی ابن طالب اور دیگر موجود اہل بیت رورہے تھے اور روتے روتے آپﷺ سے ناامید ہوکر اٹھ گئے
مذکورہ روایت میں اس بات کی بالکل وضاحت ہے کہ حضورﷺ نے زندگی کے آخری وقت تک کسی کو خلافت کے لئے نامزد نہیں فرمایا تھا۔ اگر حضرت علی کی خلافت منصوص من اللہ تھی اور فیصلہ ہوچکا ہوتا اور وہ بھی قلم دوات لانے پر اختلاف لانے کے موقع پر حضرت عباس کی گزارش مذکورہ الفاظ کی بجائے یوں ہونی چاہئے تھی۔ ’’یارسول اﷲﷺ خلافت علی رضی اﷲ عنہ منصوص من اللہ ھے تو ہمیں خوشخبری سنا دیجئے۔ مگر ایسا کچھ نہیں ھوااور نہ ہی نبی پاکﷺ نے ایسا کچھ کہا
٢۔ یہ حکم عمومی تھا خصوصی نہیں تھا اور اگر خصوصی نہیں تھا تو جتنے وہان موجود تھے ان سب پر ہی حکم نبی نہ ماننے کا الزام لازم آتا ھے۔ اور ان میں اھل بیت بھی شامل تھے ۔ فَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْبَيْتِ جو کہ شیعہ کے مطابق کون کون ھیں بتانے کی ضرورت نہیں
٣۔ حدیث میں ’’ائتونی‘‘ صیغہ جمع مذکر مخاطب بول کر پیغمبر علیہ السلام جمیع حاضرین سے کتف طلب فرمارہے ہیں۔ فقط حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے اور ان سے طلب ہی کیوں فرماتے جبکہ وہ ان کا گھر ہی نہ تھا کہ جس میں قلم دوات طلب کی گئی بلکہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا حجرہ تھا۔ ور پھر اگر قریب تھا تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا گھر لہذا اگر خاص طور پر طلب فرماتے تو ان سے کہ جن کا گھر بعید تھا
٤۔ حضور اکرمﷺ تین دن زندہ رہے اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ باوجوہ قریب البیت ہونے کے بھی ان کی تعمیل حکم نہ کرسکے اور بقول شیعہ خلافت بھی انہیں کی تحریر ہوئی تھی اور ادھر حکم رسول ﷺ بھی تھا لہذا اگر باقی سب صحابہ مخالف تھے تو ان پر لازم تھا کہ چھپے یا ظاہر ضرور لکھوا لیتے تاکہ یوم سقیفہ یہی تحریر پیش کرکے خلیفہ بلافصل بن جاتے مگر یہ سب کچھ نہیں ہوا تو معلوم ہوا کہ یا تو تحریر ہی سرے سے ضروری نہ تھی یا اس وقت میں حضور اکرمﷺ نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی رائے سے اتفاق فرمایا ورنہ آپﷺ پر کتمان حق اور وحی کا الزام عائد ہوگا حالانکہ جماعت انبیاء اس سے بالاتر ہے
کیونکہ قران میں ھے
یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ؛؛؛
اور شاید روافض یہ کہنا چاہتے ھیں کہ ایسا نہ کر کے رسالت کا حق نبی پاکﷺ نے ادا نہیں کیا سیدنا عمر نے جو کہا کتاب ﷲ کافی ھے جس پر حضورﷺ نے سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ سے اس وقت موافقت ظاہر فرمائی اور تحریر قرطاس پر زور دینے والوں کو ڈانٹ دیا
شرح صحيح البخارى میں ابن بطال (المتوفی: ٤٤٩هـ) لکھتے ہیں کہ
فقنع عمر بهذا، وأراد الترفيه عن النبى (صلى الله عليه وسلم) ، لاشتداد مرضه وغلبة الوجع عليه
پس عمر نے اس (کتاب اللہ) پر قناعت کی ان کا ارادہ نبی کو خوش کرنے کا تھا ، کیونکہ نبی پر مرض کی شدت اور بیماری غالب آ رہی ہے مزید براں
وقال النووي: وإن صح بدون الهمزة فهو لما أصابه الحيرة والدهشة لعظيم ما شاهده من هذه الحالة الدالة على وفاته وعظم المصيبة أجرى الهجر مجرى شدة الوجع
النووی کہتے ہیں اور اگر یہ لفظ همزة (استفھامیہ) کے بغیر ہے (یعنی عمر نے یہ سوال نہیں کیا بلکہ انہوں نے ایسا کہا) تو پس جو انہوں نے یہ کیفیت دیکھی تو اس کو نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات جانا اور بڑی دہشت کے عالم میں ان سے یہ الفاظ ادا ہوئے کہ بیماری کی شدت ہے
٥۔ اگر یہ ضروری تحریر تھی یا وحی الٰہی تھی اور کاغذ دوات نہ لانے والا خواہ مخواہ ہی مجرم ہوتا تو اس جرم کے مرتکب سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کے بجائے اہل بیت کو ہونا لازم آتا ہے۔ اس لئے کہ وہ ہر وقت گھر میں رہتے تھے۔ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کہ جن کا گھر باقی صحابہ کی نسبت قریب تھا اور اگر وہ مجرم نہیں تو سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ بھی مجرم نہیں۔ لہذا شیعوں کا یہ کہنا کہ سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ نے کاغذ اور دوات نہیں دینے دیا صرف اس وصیت کو جو بہت بڑا دینی معاملہ تھا شیعہ روافض کے نزدیک تو یہ باطل ھوا کہ سیدنا علی جو کہ کئی کئی لوگوں کو اکیلے ہی پچھاڑ دیا کرتے تھے سیدنا عمر سے ڈر گئے
٦۔ جو سیدنا عمر نے کہا کہ کتاب اللہ کافی ھے تو کتاب اللہ میں احادیث رسول ﷺ بھی داخل ھیں شیعہ کا چونکہ کوئی تعلق نہیں قران کے ساتھ اس لیے وہ جو مرضی ھانکتے رہیں جبکہ قران میں آتا ھے
وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی
اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی
وہ تو اپنی مرضی سے کچھ نہیں کہتے
وہ تو وحی ھے جو وہ بیان کرتے ھیں
اور اگر اب بھی سیدنا عمر کو گستاخ ہی تصور کیا جاتا ھے شیعہ روافضہ کے نزدیک تو حیران کن بات ھے کہ سیدنا عمر کے متعلق سیدنا علی اس قسم کے بیان دے رہے ھیں اور رشتے بنا رہے ھیں
١۔ سیدنا علی نے سیدنا عمر کو بیٹی کا رشتہ دے دیا جانتے بوجھتے ھوئے بھی بمطابق شیعہ کے
٢۔ سیدنا علی سیدنا عمر کو مسلمانوں کے پلٹنے کا مرکز اور صاحب دین قرار دے رہے اور شیعہ روافض کے دلوں پر سانپ لوٹ رہے
ومن كلام له عليه السلام وقد شاوره عمر بن الخطاب في الخروج إلى غزو الروم بنفسه وقد توكل الله لأهل هذا الدين بإعزاز الحوزة، وستر العورة.والذي نصرهم وهم قليل لا ينتصرون، ومنعهم وهم قليل لا يمتنعون:حي لا يموت إنك متى تسر إلى هذا العدو بنفسك فتلقهم بشخصك فتنكب لا تكن للمسلمين كانفة دون أقصى بلادهم. ليس بعدك مرجع يرجعون إليه. فابعث إليهم رجلا محربا، واحفز معه أهل البلاء والنصيحة، فإن أظهر الله فذاك ما تحب، وإن تكن الأخرى كنت ردءا للناس ومثابة للمسلمين
نہج البلاغہ ١٣٤
جب سیدنا عمر نے روم کی جنگ میں جانے کے لیے مشورہ طلب کیا
اللہ نے صاحبان دین کے لیے ذمہ داری لے لی ھے کہ ان کی سرحدوں کو طاقت دے گا اور انکی محفوط جگہوں کی حفاظت کرے گا۔ اور اس نے اس وقت بھی مدد فرمائی جب کہ مسلمان قلیل تھے اور انتقام لینے کے بھی قابل نہ تھے اور خود اپنی حفاظت بھی نہ کر سکتے تھے۔ وہ تو ذندہ ھے اور موت اسکے لیے ھے ہی نہیں اگر آپ خود دشمن کی طرف جاو گئے اور انکا سامنا کرو گے تو اگر آپ کو کچھ ھو گیا تو تو مسلمانوں کے لیے آخری شہر کے علاوہ کوئی پناہ گاہ نہ رہے گی کوئی مرکز نہ بچے گا جس کی طرف رجوع کر سکیں ۔ لہٰذا بہتر یہی ھے کسی اور تجربہ کار اور ماہرین کی ایک جماعت کو بھیج دیں اور اگر اللہ نے غالب کر دیا تو مقصد تو یہی ھے آپ کا اور اگر ناکامی ھوتی ھے تو آپ ہی مسلمانوں کے پلٹنے کا مرکز رہیں گئے
٣۔ اس خطبہ میں سیدنا علی سیدنا عمر کو امر قرار دے رہے
ومن كلام له عليه السلام وقد استشاره عمر بن الخطاب في الشخوص لقتال الفرس بنفسه
إن هذا الأمر لم يكن نصره ولا خذلانه بكثرة ولا قلة. وهو دين الله الذي أظهره، وجنده الذي أعده وأمده، حتى بلغ ما بلغ وطلع حيث طلع. ونحن على موعود من الله. والله منجز وعده وناصر جنده.ومكان القيم بالأمر مكان النظام من الخرز يجمعه ويضمه. فإن انقطع النظام تفرق وذهب، ثم لم يجتمع بحذافيره أبدا.والعرب اليوم وإن كانوا قليلا فهم كثيرون بالاسلام وعزيزون بالاجتماع. فكن قطبا، واستدر الرحى بالعرب، وأصلهم دونك نار الحرب، فإنك إن شخصت من هذه الأرض انتقضت عليك العرب من أطرافها وأقطارها، حتى يكون ما تدع وراءك من العورات أهم إليك مما بين يديك إن الأعاجم إن ينظروا إليك غدا يقولوا هذا أصل العرب فإذا قطعتموه استرحتم، فيكون ذلك أشد لكلبهم عليك وطمعهم فيك.فأما ما ذكرت من مسير القوم إلى قتال المسلمين فإن الله سبحانه هو أكره لمسيرهم منك، وهو أقدر على تغيير ما يكره. وأما ما ذكرت من عددهم فإنا لم نكن نقاتل فيما مضى بالكثرة، وإنما كنا نقاتل بالنصر والمعونة
نہج البلاغہ ١٤٦
جب سیدنا عمر نے فارس کی جنگ میں جانے کے لیے مشورہ طلب کیا
بے شک دین کی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار کثر و قلت پر نہیں ۔ بلکہ یہ اللہ کا دین ھے جسے اسی نے غالب کیا ھے اور اللہ کا ہی دستہ ھے جسے اسی نے تیار کیا ھے اور اسی نے امداد کی کہ یہ اپنی منزل پر پہنچا اور اب پھیل رہا ھے۔ ھم اللہ کی طرف سے ایک وعدہ کے پابند ھیں اور وہ بلا شک و شبہ اپنا وعدہ پورا کرنے والا ھے اور اپنے لشکر کی ہر طور مدد و نصرت کرے گا۔ملک میں امر کی حثیت تسبیح کے دانوں کے دھاگے کی سی ھوتی ھے کہ وہی سب کو اکٹھا کیے ھوئے ھوتا ھے ۔ وہ اگر ٹوٹ جائے تو سب بکھر جاتے ھیں اور دوبارہ جمع کرنا ناممکن ھو جاتا ھے۔ عرب اگرچہ آج قلیل ھیں مگر یہ اسلام ھے جس کی بدولت وہ کثیر ھیں اور یہ انکا اتحاد و یگانگت ھے جو وہ غالب آئے ھوئے ھیں لہٰزا آپ مرکز میں ہی رہین اور اس چکی کو گھماتے رہیں۔ اور ان کو جنگ لڑنے دیں۔ اور اگر کہیں آپ نکل کھڑے ھوئے تو سارا عرب امڈ آئے گا ۔ اور شریک جنگ ھو جائے گا ۔ اور جن شہروں کو آپ نے محفوظ بنایا ھوا ھے ان کا مسئلہ شاید جنگ سے زیادہ شدید ھو جائے گا۔ اور اگر دشمنوں نے آپ کو دیکھ لیا تو کہیں گئے عربوں کی اصل یہی ھے اسکو کو ختم کر دیں تو راحت مل جائے گی