صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سورہ برات کے سنانے کا حکم واپس لے لینا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سونپنا
بعث النبيّ صلي اللہ عليہ وسلم ببراء ۃ مع أبي بکر ، ثمّ دعاہ ، فقال : لا ينبغي أن تبلغ ھذا عنّي إلّا رجل من أھلي ، فدعا عليّا، فأعطاہ إيّاہ
مصنف ابن ابي شيبۃ : ١٢/٨٤۔٨٥، مسند الامام احمد : ٣/٢١٢،٢٨٣، سنن الترمذي : ٣٠٩٠، وقال : حسن غريب ، خصائص علي للنسائي : ٧٥، مشکل الآثار للطحاوي : ٣٥٨٨، ٣٥٨٩، وسندہٗ حسنٌ
ترجمہ
نبيِ اکرم نے سيدنا ابوبکر کو براٴت کے ساتھ بھيجا، پھر ان کو بلايا اور فرمايا : اس براٴت کو ميرے گھر والوں ميں سے کوئي آدمي پہنچائے تو ہي مناسب ہے۔ آپ نے سيدنا علي کو بلايا اور اسے عطا فرمايا
حافظ ابنِ حجر نے اس کي سند کو “حسن” کہا ہے
فتح الباري لابن حجر : ٨/٣٢٠
تبصرہ
نبيِ اکرم نے پہلے پہل سيدنا ابوبکر کو دو کام سونپے تھے۔ پہلا کام امارت ِ حج اوردوسرا سورۂ توبہ کي تبليغ ۔ آپ امارت ِ حج پر بدستور قائم رہے، البتہ سورۂ توبہ کي آيات کي تبليغ خاص سيدناعلي کے ذمہ لگا دي گئي۔ اس کا ہرگز يہ مطلب نہيں تھا کہ سيدنا ابوبکر تبليغِ دين کي اہليت نہيں رکھتے تھے يا تبليغِ دين صرف سيدناعلي کا حق تھا يا نبيِ اکرم ، سيدناابوبکر سے ناخوش تھے ۔ ايسے بالکل نہ تھا ۔نبيِ اکرم نے اس کي وجہ صرف يہ بيان کي کہ ميرے گھر والوں ميں سے ہي کوئي يہ تبليغ کرے گا۔کيونکہ امارت ِ حج اس سے بھي بھاري ذمہ داري تھي جوسيدنا ابوبکر کوسونپي گئي تھي اورآخر تک انہوں نے اسے نبھايا تھا
سيدنا ابوہريرہ بيان کرتے ہيں
إنّ أبا بکر رضي اللّٰہ عنہ بعثہ في الحجّۃ التي أمّرہ رسول اللّٰہ صلي اللہ عليہ وسلم عليھا قبل حجّۃ الوداع في رھط يؤذّن في الناس أن لا يحجّن بعد العام مشرک ، ولا يطوف بالبيت عريان
صحيح البخاري ٢/٦٧١، ح : ٤٦٥٧
ترجمہ
سيدنا ابوبکر کو حجۃ الوداع سے قبل اللہ کے رسول نے اس حج ميں بھيجا جس ميں انہيں لوگوں کے ايک بڑے گروہ ميں امير مقررکيا تھا کہ آپ يہ اعلان کرديں کہ اس سال کے بعد کوئي مشرک قطعاً حج نہ کرے اور نہ کوئي ننگا شخص بيت اللہ کا طواف کرے
حافظ ابنِ حجر، امام طحاوي حنفي کي کتاب شرح مشکل الآثار کے حوالے سے نقل کرتے ہيں
ہذا مشکل ، لأنّ الأخبار في ہذہ القصۃ تدلّ علي أنّ النبيّ صلي اللہ عليہ وسلم کان بعث أبا بکر بذلک ثم أتبعہ عليا فأمرہ أن يؤذّن فکيف يبعث أبو بکر أبا ہريرۃ ومن معہ بالتأذين مع صرف الأمر عنہ في ذلک إلي عليّ ، ثم أجاب بما حاصلہ أنّ أبا بکر کان الأمير علي الناس في تلک الحجّۃ بلا خلاف ، وکان عليّ ہو المأمور بالتأذين بذلک ، وکأنّ عليّا لم يطق التأذين بذلک وحدہ ، واحتاج إلي من يعينہ علي ذلک ، فأرسل معہ أبو بکر أبا ہريرۃ وغيرہ ليساعدوہ علي ذلک
فتح الباري لابن حجر : ٨/٣١٨
ترجمہ
اس ميں کچھ اشکال ہے ، کيونکہ اس قصہ کے بارے ميں احاديث يہ بتاتي ہيں کہ رسولِ اکرم نے سيدنا ابوبکر کو اس حکم کے ساتھ بھيجا تھا، پھر سيدنا علي کو اس کے پيچھے بھيجا اورحکم فرمايا کہ وہ اعلان کريں۔ پھر سيدنا ابوبکر ، سيدنا ابوہريرہ اور دوسرے لوگوں کا اعلان کرنے کے ليے سيدناعلي کي طرف کيسے بھيج سکتے تھے، حالانکہ يہ معاملہ ان سے واپس لے ليا گيا تھا؟ پھر امام طحاوي نے اس کا جواب ديا ہے جس کا حاصل يہ ہے کہ بلاشبہ سيدنا ابوبکر لوگوں کے امير تھے۔ سيدنا علي اس اعلان کا حکم ديئے گئے تھے۔شايد يہ اعلان اکيلے سيدناعلي کے بس ميں نہ تھا اور آپ معاونت کے ليے لوگوں کے محتاج تھے۔ لہٰذا سيدنا ابوبکر نے سيدنا ابوہريرہ اورديگر لوگوں کو ان کے ساتھ بھيجا تاکہ وہ سيدناعلي کي معاونت کريں
يہ حديث اس بات پر نص ہے کہ خلافت کے اولين حقدار سيدنا ابوبکر ہي تھے ، کيونکہ امير حج آپ تھے۔ رہا سورۂ توبہ کي تبليغ کا معاملہ تو حافظ ابنِ حجر حديث کے الفاظ لا ينبغي أن تبلغ ھذا عنّي کے تحت لکھتے ہيں
ويعرف منہ أنّ المراد خصوص القصّۃ المذکورۃ ، لا مطلق التبليغ
فتح الباري لابن حجر : ٨/٣١٩
ترجمہ
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد مخصوص مذکورہ واقعہ تھا ، نہ کہ مطلق تبليغ
احمد بن عبداللہ الطبري لکھتے ہيں
وہذا التبليغ والاداء يختصّ بہذہ الواقعۃ لسبب اقتضاہ ، وذلک أنّ عادۃ العرب في نقض العہود أن لا يتولّي ذلک إلّا من تولّي عقدہا ، أو رجل من قبيلتہ ، وکان النبي صلي اللہ عليہ وسلم ولّي أبا بکر ذلک جريا علي عادتہ في عدم مراعاۃ العوائد الجاہليۃ ، فأمرہ اللّٰہ تعالي أن لا يبعث في نقض عہودہم إلّا رجلا منہ قطعا لحججہم وإزاحۃ لعللہم ، لئلّا يحتجّوا بعوائدہم ، والدليل علي أنّہ لا يختصّ التبليغ عنہ بأہل بيتہ أنّہ قد علم بالضرورۃ أنّ رسلہ صلي اللہ عليہ وسلم لم تزل مختلفۃ إلي الآفاق في التبليغ عنہ وأداء رسالتہ وتعليم الأحکام والوقائع يؤدّون عنہ صلي اللہ عليہ وسلم
ذخائر العقبٰي لاحمد بن عبد اللہ الطبري : ص ١٢٩
ترجمہ
يہ تبليغ واداء اس واقعے کے ساتھ خاص ہے جس کا ايک سبب متقاضي تھا۔ عرب کادستور عہد کوتوڑنے کا يہ تھا کہ اس کا اعلان وہي کرتا جس نے عہد کيا تھا يا اس کے قبيلے کا کوئي آدمي۔ نبيِ اکرم نے يہ کام پہلے جاہليت کے دستور کو مدنظر نہ رکھتے ہوئے سيدنا ابوبکر کے سپرد کيا ، ليکن اللہ تعاليٰ نے آپ کو حکم ديا کہ آپ اپنے قبيلے کا کوئي آدمي اس کام کے ليے بھيجيں تاکہ ان کي حجت ختم ہوجائے اور ان کے حيلے کٹ جائيں اور وہ اپنے دستور کو دليل نہ بنائے پھريں۔ نبيِ اکرم کے گھروالوں کے ساتھ تبليغ خاص نہ تھي ، اس پر دليل يہ ضروري طور پر معلوم بات ہے کہ تبليغ ، رسالت ،احکام کي تعليم اور پيغامات کے ليے آپ کے پيغام رساں مختلف علاقوں کي طرف مختلف رہے ہيں