Difa e Ahlesunnat

Difa e Ahlesunnat

Hazrat Ayesha (Radi ALLAHu Ta'ala Anha) Or Ghusal Wali Riwayat


حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا پر غسل والی حدیث کے شبھہ کا رد

اہل تشیع اور منکرین حدیث صحیح بخاری کی جن بیشمار صحیح احادیث پر اعتراض کرتے ہیں ، ان میں سے ایک حدیث وہ بھی ہے جس کے متن میں درج ہے کہ اُم المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے دو مردوں کے سامنے غسل کیا تھا۔ شیعہ اور منکریں حدیث کا یہ خود ساختہ اور معیوب نظریہ سلف و صالحین کے نظریئے کے خلاف ہے اور اجماع کے خلاف بھی

امام بخاری فرماتے ہیں کہ

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الصَّمَدِ، قَالَ حَدَّثَنِي شُعْبَةُ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ، يَقُولُ دَخَلْتُ أَنَا وَأَخُو، عَائِشَةَ عَلَى عَائِشَةَ فَسَأَلَهَا أَخُوهَا عَنْ غُسْلِ النَّبِيِّ، صلى الله عليه وسلم فَدَعَتْ بِإِنَاءٍ نَحْوًا مِنْ صَاعٍ، فَاغْتَسَلَتْ وَأَفَاضَتْ عَلَى رَأْسِهَا، وَبَيْنَنَا وَبَيْنَهَا حِجَابٌ‏.‏ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ قَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ وَبَهْزٌ وَالْجُدِّيُّ عَنْ شُعْبَةَ قَدْرِ صَاعٍ‏.

بخاری کتاب الغسل باب الغسل بالصاع ونحوہ ح ٢٥١

ابو سلمہ (عبدالرحمٰن) فرماتے ہیں کہ!۔ میں اور عائشہ (رضی اللہ عنہا) کا (رضاعی) بھائی (ہم دونوں) عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے پاس گئے آپ کے (رضاعی) بھائی نے نبی صلی اللہ علیہ کے (سر کے) غسل کے بارے میں پوچھا (کہ یہ کیسا تھا؟) تو انہوں (عائشہ رضی اللہ عنا) نے صاع (ڈھائی کلو) کے برابر (پانی کا) ایک برتن منگوایا پھر انہوں نے غسل کیا اور اپنے سر پر پانی بہایا، ہمارے اور ان کے درمیان پردہ تھا۔

 اس حدیث کو امام مسلم ٣٢٠/٤٢، دارالسلام:٧٢٨) نسائی (الصغری:١٢٧/١ح٢٢٨ والکبری:١١٦/١ح٢٣٢ احمد بن حنبل (المسند:٦/ ٧٢،٧١ح٢٤٩٣٤، ١٤٣/٦ح٢٥٦٢٠) ابو نعیم الاصبھانی (المستخرج علی صحیح مسلم ٣٧٠/١ ح ٧٢٠ ابوعوانہ (المسند المستخر جلد ١/ ٢٦٦،٢٩٥) اور بہیقی (السنن الکبرٰی:١٩٥/١) نے شعبہ (بن الحجاج) کی سند سے مختراََ و مطولانحو المعنی بیان کیا ہے اس روایت کے مفہوم میں درج ذیل باتیں اہم ہیں۔

 ١۔ صحابہ کرام کے دور میں اس بات پر شدید اختلاف ہوگیا تھا کہ غسل جنابت کرتے وقت عورت اپنے سر کے بال کھولے گی یا نہیں اور یہ کہ غسل کے لئے کتنا پانی کافی ہے عبدالللہ بن عمر رضی اللہ عنہ عورتوں کو حکم دیتے تھے کہ غسل کرتے وقت اپنے سر کے بال کھول کر غسل کریں اس پر تعجب کرتے ہوئے امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ۔۔

ياعجباً لا بن عمرو ھذا يأمر النساء إّذا اغتسلن أن ینقضن روؤسھن أفلا یأمرھن أن يحلقن رؤوسن

صحیح مسلم ٣٣١/٥٩، دارالسلام:٧٤٧

ابن عمرو پر تعجب ہے کہ وہ عورتوں کو حکم دیتے ہیں کہ غسل کرتے وقت اپنے سر کے بال کھول دیں وہ انہیں یہ حکم نہیں دیتے کہ وہ اپنے سر کے بال منڈوا ہی لیں؟

 ٢۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہا پر رد کے لئے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عملاَََََ سر پر پانی ڈال کر سمجھایا کہ بال کھولنا ضروری نہیں ہے۔

٣۔ محدث ابوعوانہ الاسفرائنی (متوفی ٣١٦ ھ) نے اس حدیث پر درج ذیل بات باندھا ہے

باب صفۃ الاوانی التی کان یغتسل منھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وصفۃ غسل راسہ من الجنابۃ، دون سائر جسدہ

صحیح ابوعوانہ:٢٨٤/١

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل والے برتنوں کا بیان اور غسل جنابت میں، باقی سارے جسم کو چھوڑ کر (صرف) سردھونے کی صفت کا بیان

محدث کبیر کی اس تبویب سے معلوم ہوا سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے صرف سر دھو کر دکھایا تھا باقی جسم دھوکر نہیں دکھایا تھا

٤۔ صحیح مسلم والی روایت میں آیا ہے کہ

فأفرغت علی رأسھا ثلاثاً

صحیح مسلم ٣٢٠/٤٢

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے سر پر تین دفعہ (بال کھولنے کے بغیر ہی) پانی بہایا تھا

باقی جسم کے غسل کا کوئی ذکر اس روایت میں نہیں ہے

٥۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں آیا ہے کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ اور شاگردوں کے درمیان (موٹا) پردہ (حجاب، ستر) تھا ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کررہے تھے

فاطمہ ابنتہ تسترہ یثوب

موطا امام مالک:١٥٢/١ ح ٣٥٦ بتحقیق، وصحیح البخاری:٣٥٧ و صحیح مسلم:٢٣٦/٨٢ بعد ح ٧١٩

 اور آپ کی بیٹی فاطمہ نے ایک کپڑے کے ذریعے آپ کا پردہ کر رکھا تھا

یہ ظاہر ہے کہ پردے کے پیچھے نظر آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ورنہ پھر پردے کا کیا مقصد ہے؟

٦۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے رضائی بھائی عبداللہ بن یزید البصری تھے (ارشاد الساری للقسطلانی: ج ١ ص ٣١٧) یا کثیر بن عبیدالکوفی تھے (فتح الباری:٣٦٥/١) ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھانجے تھے (فتح الباری:٣٦٥/١) معلوم ہوا کہ یہ دونوں شاگرد، غیر مرد نہیں بلکہ محرم تھے اسلام میں محرم سے سر، چہرہ اور ہاتھوں کا کوئی پردہ نہیں ہے

٧۔ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں کہ

اس حدیث پر منکرین حدیث اعتراض کرتے ہیں کہ ان احادیث کو ماننے سے لازم آتا ہے کہ اجنبی مرد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے سوال کرتے تھے اور وہ اُن کو غسل کر کے دکھادیتی تھیں اس کا جواب یہ ہے کہ وہ مرد اجنبی نہ تھے ان میں سے ابو سلمہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے رضاعی بھتیجے تھے اور دوسرے عبداللہ بن یزید آپ کے رضائی بھائی تھے غرض دونوں محرم تھے آپ نے حجاب کی اوٹ میں غسل کیا اور ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ ازواج مطہرات کپڑوں کے ساتھ غسل کرتی تھیں اور اس سے آپ کا مقصد یہ تھا کہ ان کو شرح صدر ہوجائے کہ اتنی مقدار پانی غسل کے لئے کافی ہوتا ہے

علامہ بدر الدین عینی لکھتے ہیں

قاضی عیاض نے کہا: اس حدیث کا ظاہر یہ ہے کہ ان دونوں نے سر اور جسم کے اس بالائی حصے میں غسل کا عمل دیکھا جس کو دیکھنا محرم کے لئے جائز ہے اور اگر انہوں نے اس غسل کا مشاہدہ نہ کیا ہوتا تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پانی منگانے اور ان کی موجودگی میں غسل کرنے کا کوئی فائدہ نہ تھا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے ستر کا انتظام، سر اور چہرے کے نچلے حصے کے لئے کیا تھا جس کو دیکھنا محرم کے لئے جائز نہیں ہے

شرح صحیح مسلم جلد ١ صفحہ ١٠١٩۔١٠٢٦

خلاصہ یہ کہ اس حدیث میں یہ مسئلہ بیان ہوا ہے کہ غسل میں سر کے بال کھولنے کے بغیر ہی سر پر تین دفعہ پانی ڈالنا چاہئے اس حدیث کا باقی جسم کے غسل سے کوئی تعلق نہیں ہے