٦ شوال المکرم ٨ ھجری کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم غزوہ حنین کے لئے تشریف لے گئے۔
...اس غزوہ کی تفصیلات درج زیل ہیں
٨ھ / ٦٣٠ء حنین مکہ اور طائف کے درمیان ایک مقام کا نام ہے۔ تاریخ اسلام میں اس جنگ کا دوسرا نام غزوہ ہوازن بھی ہے۔ اس لئے کہ اس لڑائی میں بنی ہوازن سے مقابلہ تھا۔ مکہ اور طائف کی درمیان وادی میں بنو ہوازن اور بنو ثقیف دو قبیلے آباد تھے۔ یہ بڑے بہادر ، جنگجو اور فنون جنگ سے واقف سمجھے جاتے تھے۔ فتح مکہ کے بعد بھی انہوں نے اسلام قبول نہ کیا ان لوگوں نے یہ خیال قائم کرلیا کہ فتح مکہ کے بعد ہماری باری ہے اس لئے ان لوگوں نے یہ طے کرلیا کہ مسلمانوں پر جو اس وقت مکہ میں جمع ہیں ایک زبردست حملہ کردیا جائے۔ چنانچہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن ابی حدرد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تحقیقات کے لئے بھیجا۔
جب انہوں نے وہاں سے واپس آکر ان قبائل کی جنگی تیاریوں کا حال بیان کیااور بتایا کہ قبیلہ ہوازن اور ثقیف نے اپنے تمام قبائل کو جمع کرلیا ہے اور قبیلہ ہوازن کا رئیس اعظم مالک بن عوف ان تمام افواج کا سپہ سالار ہے اور سو برس سے زائد عمر کا بوڑھا۔ درید بن الصمہ جو عرب کا مشہور شاعر اور مانا ہوا بہادر تھا بطور مشیر کے میدانِ جنگ میں لایا گیا ہے اور یہ لوگ اپنی عورتوں بچوں بلکہ جانوروں تک کو میدانِ جنگ میں لائے ہیں تاکہ کوئی سپاہی میدان سے بھاگنے کا خیال بھی نہ کرسکے۔
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ٦ شوال المکرم ٨ ہجری میں بارہ ہزار مجاہدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے ساتھ ان کے مقابلے کو نکلے۔ ان میں دو ہزار سے زائد نو مسلم اور چند غیر مسلم بھی شامل تھے۔ دشمنوں نے اسلامی لشکر کے قریب پہنچنے کی خبر سنی تو وادی حنین کے دونوں جانب کمین گاہوں سے اس زور کی تیر اندازی کی کہ مسلمان سراسیمہ ہوگئے ۔
مکہ کے نو مسلم افراد سب سے پہلے ہراساں ہو کر بھاگے۔ ان کو دیکھ کر مسلمان بھی منتشر ہونا شروع ہوگئے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے ساتھ چند جاں نثار صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میدان میں رہ گئے اور بہادری سے لڑتے رہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم تلوار ہاتھ میں لے کر رجز پڑھ رہے تھے۔ ’’انا النبی لاکذب انا ابن عبدالمطلب‘‘ آپ کی ثابت قدمی اور شجاعت نے مسلمانوں کے حوصلے بلند کیے اور یہ مٹھی بھر آدمی دشمن کے سامنے ڈٹے رہے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے حکم سے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نام لے کے مہاجر و انصار کو بلایا۔ اس آواز پر مسلمان حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے گرد اکھٹے ہوگئے اور اس شدت سے جنگ شروع ہوئی کہ لڑائی کا رنگ بدل گیا۔ کفار مقابلے کی تاب نہ لاسکے اور بھاگ نکلے۔ بنو ثقیف نے طائف کا رخ کیا۔ بنو ہوازن اوطاس میں جمع ہوئے لیکن مسلمانوں نے اوطاس میں انہیں شکست دی۔ مسلمانوں کو شاندار کامیابی ہوئی اور دشمن کے ہزاروں آدمی گرفتار ہوئے۔
دس ہزار تو مہاجرین و انصار وغیرہ کا وہ لشکر تھا جو مدینہ سے آپ کے ساتھ آیا تھا اور دو ہزار نومسلم تھے جو فتح مکہ میں مسلمان ہوئے تھے۔ آپ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اس لشکر کو ساتھ لے کر اس شان و شوکت کے ساتھ حنین کا رُخ کیا کہ اسلامی افواج کی کثرت اور اس کے جاہ و جلال کو دیکھ کر بے اختیار بعض صحابہ کی زبان سے یہ لفظ نکل گیا کہا آج بھلا ہم پر کون غالب آسکتا ہے۔ لیکن خداوند عالم کو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا اپنی فوجوں کی کثرت پر ناز کرنا پسند نہیں آیا۔ چنانچہ اس فخر و نازش کا یہ انجام ہوا کہ پہلے ہی حملہ میں قبیلہ ہوازن و ثقیف کے تیر اندازوں نے جو تیروں کی بارش کی اور ہزاروں کی تعداد میں تلواریں لےکر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے تو وہ دو ہزار نو مسلم اور کفار مکہ جو لشکر اسلام میں شامل ہو کر مکہ سے آئے تھے ایک دم سرپر پیر رکھ کر بھاگ نکلے۔ ان لوگوں کی بھگدڑ دیکھ کر انصار و مہاجرین کے بھی پاؤں اکھڑ گئے۔
حضور تاجدار دوعالم حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے جو نظر اٹھا کر دیکھا تو گنتی کے چند جاں نثاروں کے سوا سب فرار ہو چکے تھے۔ تیروں کی بارش ہو رہی تھی۔ بارہ ہزار کا لشکر فرار ہو چکا تھا مگر خدا کے رسول حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے پائے استقامت میں بال برابر بھی لغزش نہیں ہوئی۔ بلکہ آپ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اکیلے ایک لشکر بلکہ ایک عالم کائنات کا مجموعہ بنے ہوئے نہ صرف پہاڑ کی طرح ڈٹے رہے بلکہ اپنے سفید خچر پر سوار برابر آگے ہی بڑھتے رہے اور آپ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی زَبانِ مبارک پر یہ الفاظ جاری تھے کہ
اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ
میں نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں ہے میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔
اسی حالت میں آپ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے داہنی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پکارا کہ یَا مَعْشَرَ الْاَنْصَارِ فورًا آواز آئی کہ ہم حاضر ہیں،یا رسول اﷲ! حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم پھر بائیں جانب رخ کرکے فرمایا کہ یَا لَلْمُھَاجِرِیْنَ فوراً آواز آئی کہ ہم حاضر ہیں،یا رسول اﷲ! حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم
حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ چونکہ بہت ہی بلند آواز تھے۔ آپ نے ان کو حکم دیا کہ انصار و مہاجرین کو پکارو۔ انہوں نے جو یَا مَعْشَرَ الْاَنْصَار اور یَا لَلْمُھَاجِرِیْنَ کا نعرہ مارا تو ایک دم تمام فوجیں پلٹ پڑیں اور لوگ اس قدر تیزی کے ساتھ دوڑ پڑے کہ جن لوگوں کے گھوڑے ازدحام کی و جہ سے نہ مڑ سکے انہوں نے ہلکا ہونے کے لئے اپنی زرہیں پھینک دیں اور گھوڑوں سے کود کود کر دوڑے اور کفار کے لشکر پر جھپٹ پڑے اور اس طرح جاں بازی کے ساتھ لڑنے لگے کہ دم زدن میں جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔ کفار بھاگ نکلے کچھ قتل ہو گئے جو رہ گئے گرفتار ہو گئے۔
قبیلہ ثقیف کی فوجیں بڑی بہادری کے ساتھ جم کر مسلما نو ں سے لڑتی رہیں۔ یہاں تک کہ ان کے ستر بہادر کٹ گئے۔ لیکن جب ان کا علمبردار عثمان بن عبداﷲ قتل ہو گیا تو ان کے پاؤں بھی اُکھڑ گئے۔ اور فتح مبین نے حضور رحمۃ للعالمین حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے قدموں کا بوسہ لیا اور کثیر تعداد و مقدار میں مال غنیمت ہاتھ آیا
... بحوالہ: بخاری ج٢ص٦٢١ غزوۂ طائف